Official Web

امریکہ کی تجارتی تحفظ پسندی کا شکار، امریکی ادارے ، سی آر آئی اردو کا تبصرہ

موجود امریکی انتظامیہ نام نہاد” امریکہ فرسٹ” کے نعرے، تجارتی تحفظ پسندی اور چین مخالفت کی ایک ایسی گاڑی پر سوار ہے جو امریکیوں کے مفادات کو بھی روندتی چلی جارہی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں، اس گاڑی کے ڈرائیور کی آنکھوں پر اپنے مفادات کی پٹی بندھی ہےاور وہ سامنےآنے والے ہر اپنے اور پرائے کو نقصان پہنچانے پر اترا ہوا ہے۔

تجارتی تحفظ پسندی کی شکار امریکی انتظامیہ نے 300 ارب امریکی ڈالر سے زائد کی چینی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کئے  جس کی وجہ سے ان مصنوعات کو استعمال کرنے والے امریکی کاروباری ادارے اور امریکی صارفین کو شدید مالی دباؤ اور مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگے داموں خام مال خریدنے کی وجہ سے بڑے بڑے امریکی کاروباری اداروں کے  لئے مسابقتی ماحول میں کام کرنا ناممکن ہوتا چلاجارہا ہے۔

اسی صورت حال کے پیش نظر تین ہزار پانچ سو سے زائد امریکی کاروباری اور تجارتی تنظیموں نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کردیا ہے۔ اپنے حقوق کی قانونی جنگ لڑنے والے ان اداروں میں ٹیسلا،  فورڈ موٹر کمپنی ، ٹارگٹ کارپوریشن ، وال گرین کمپنی اور ہوم ڈپو سمیت دیگر اہم  ادارے شامل ہیں ۔ یہ تمام مقدمات گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دائر کئے گئے ہیں۔ امریکی عدالت برائے بین الاقوامی تجارت میں دائر کردہ ان مقدموں میں ، امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹزر اور کسٹمز و بارڈر پروٹیکشن ایجنسی کو نامزد کیا گیا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ  محصولات میں اضافے کا عمل غیر قانونی ہےاور اس کا مقصد محض  چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو ہوا دینا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد کمپنیوں نے اپنی قانونی دلیل میں کہاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مطلوبہ 12 ماہ کی مدت میں محصولات عائد کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس دوران طے شدہ انتظامی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔

15 ستمبر کو ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ امریکہ نے چین کے ساتھ ٹرمپ کی تجارتی جنگ میں اربوں ڈالر کے محصولات عائد کر کے عالمی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ڈبلیو ٹی او نے اس امریکی دلیل کو مسترد کردیا ہے جس کے مطابق محصولات ان مصنوعات پر لاگو کیے گیے ہیں جن کی تیاری میں امریکی "اخلاقی روایات" کے برعکس چوری، غیر منصفانہ مقابلے اورغیر قانونی طریقوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے سن2018 میں عائد کردہ محصولاتنے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے مابین تجارتی جنگ کو ہوا دی۔ چینی حکومت متعدد بار یہ کہہ چکی ہے کہ تجارتی جنگوں کا کوئی حتمی فاتح نہیں ہوتا۔ موجود امریکی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی چین سے زیادہ خود اس کے اپنے شہریوں اور کاروباری اداروں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ امریکی ارباب اختیار کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔