Official Web

چین اور بھارت کو اختلافات کو دانش مندانہ طور پر حل کرنا ہو گا ، سی آر آئی اردو کا تبصرہ

چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای اور بھارت کے  وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے درمیان 10 ستمبر کو ماسکو میں  مذاکرات ہوئے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے پرخلوص  ماحول میں  چین – بھارت سرحدی صورتحال اور دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے تعمیری تبادلہ خیال کرتے ہوئے پانچ امور پر اتفاق کیا جن میں سرحدی کشیدگی میں کمی ، رابطے اور مشاورت کو جاری رکھنا ، باہمی اعتماد سازی کے لیے نئے اقدامات اپنانا شامل ہیں۔

دو بڑی ہمسایہ طاقتوں کی حیثیت سے چین اور بھارتکے مابین کچھ امور پر اختلافات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ، لیکن باہمی تعلقات میں اختلافات کو مناسب طور پر  حل کرنا قدیم تہذیب و تمدن کے حامل دونوں ملکوں کے لئے ایک دانشمندانہ انتخاب ہے۔دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ عالمگیریت اور  کثیرالجہتی کے رحجانات کے تناظر میں چین اور بھارت کو ایک دوسرے کے مدمقابل، یہاں تک کہ دشمن کہلانے کیبجائے تعاون کا شراکت دار ہونا چاہیے۔چین اور بھارت دنیا کے دو سب سے بڑے ترقی پزیر ممالک ہیں اور دونوں ممالک نئی ابھرتی ہوئی بڑی معیشتیں ہیں اور  دونوں برکس سمیت  دیگر بین الاقوامی ترقیاتی  گروہوں کے رکن بھی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے اپنے قدیم تہذیب و تمدن کے ورثوں  میں نئی جان ڈال کر معیشت کو فروغ دینا اور اپنے عوام کے لئے خوشحال زندگی کی تخلیق ، دونوں ملکوں کی قیادت کا بنیادی اورحتمی  مشن ہے۔اس مشن کی انجام دہی کے لئے دونوں ملکوں کو صف آرائی کی بجائے قریبی تعاون کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے لئے خطرہ کی بجائے، ترقی کے مواقع میں ڈھلنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے باہمی اعتمادسازی کو فروغ دینا چاہیے۔

بتایا جاتا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر  نے چینی ہم منصب سے ملاقات کے موقع پر یہ خیال ظاہر کیا کہ بھارت دونوں ملکوں کے  سرحدی علاقوں میں تناؤ میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کی چین کے ساتھ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بھارت ہمیشہ یہ مانتاآیا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کی ترقی لازمی طور پر سرحدی مسئلے کے حل پر منحصر نہیں ہے۔ بھارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تنزلی نہیں دیکھنا چاہتاہے۔

سب کو معلوم ہے کہ چین بھارت سرحدی تنازعات کا ذمہ دار بھارت ہی ہے۔تاہم حال ہی میں بھارتی حکومت نے سرحدی علاقے میں کشیدگی میں اضافے کی آڑ میں ملک میں  چین کی متعدد موبائل ایپس کے استعمال پر پابندی کا اعلان کیا تھا ، جس کی چینی حکومت نے شدید مخالفت کی تھی ۔بھارت کی یہ کارروائی بین الاقوامی تجارتی ضوابط اور دونوں ملکوں کے عوام کے بنیادی مفادات کے برعکس ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بھارتی قیادت اپنی غلطی کی درستگی سے جلد ہی دو طرفہ تجارتی و معاشی تعاون کےلئے سازگار ماحولتشکیل دے گی۔

جیسا کہ چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے ماسکو میں بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے وقت کہا کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں درپیش مشکلات کے تناظر میں مجموعی صورتحال کو مستحکم رکھنے اور باہمی اعتماد سازی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقتچین – بھارت تعلقات ایک مرتبہ پھر ایک نئے دوراہے پر ہیں ، ایسے میں صحیح معنوں میں فریقین کو باہمی تعلقات کی درست سمت کا تعین کرنا ہو گا تاکہ ایسی رکاوٹیں پیدا نہ ہوں جن پر قابو نہ پایا جا سکے۔