جب سے حضرت انسان نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں ارتقائی مراحل کے سفر کا آغاز کرتے ہوئے نت نئی ایجادات کا ڈول ڈالا ہے تب سے جہاں اس نے اپنے شب وروز آسان اور پر تعیش بنائے ہیں، وہیں اسے آئے روز مختلف مسائل و مصائب کا سامنا بھی ہے۔
گزشتہ دو اڑھائی صدیوں سے نئی سہولتوں کی دریافت کے ساتھ ساتھ اسے نئے امراض سے بھی واسطہ پڑرہا ہے۔طاعون کی وبا سے لے کر ہسپانوی انفلوئنزا تک، ایڈز کی ہلاکت خیزیوں سے لے کر سارس وائرس کی تباہ کاریوں تک،سوائن فلو،برڈ فلو،زیکا،نفھاہ اور ایبولا وائرسز کی وباؤں کے اثرات ابھی معدوم نہیں ہوئے تھے کہ کورونا وائرس موت کا بگل بجاتے آدھمکا۔
وبائی امراض کی پیدائش و افزائش پر غور کیا جائے تو ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مادی ارتقاء نے سہولتوں کے ساتھ ساتھ مشکلات و مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ ماہرین ایک مرض پر قابو پانے ہی لگتے ہیں کہ دوسری بیماری تباہی کے روپ میں وارد ہوجاتی ہے۔ دنیا میں تمام ترقیاں سائنس کے بل بوتے پر ممکن ہوسکی ہیں لیکن دھیان رہے کہ سائنس اور فطرت میں ہم آہنگی پیدا کیے بنا ہر ترقی ’ترقی معکوس‘ ہی رہے گی کیونکہ سائنس فطرت کا جز ہے جبکہ فطرت ایک مکمل طاقت ہے اور کائنات کے تمام علوم وفنون لوازمات و آلات فطرت سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔