Official Web

بھارتی جارحیت کا جس طرح جواب دیا دنیا یاد رکھے گی، وزیراعظم

اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کے منہ توڑ جواب کو ایک سال مکمل ہونے پر وزیراعظم ہاؤس میں تقریب کا انعقاد ہوا۔

گزشتہ سال 27 فروری کو پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کے منہ توڑ جواب کا ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں تقریب منعقد ہوئی، جس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، ’’بھارتی جارحیت پر پاکستان کا ذمہ دارانہ جواب‘‘ کے موضوع پر تقریب وزیرِ اعظم آفس میں ہوئی جس میں بھارت کو پاک افواج کے جواب پر خصوصی ڈاکیومنٹری بھی پیش کی گئی۔

تقریب میں وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراء سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے، جب کہ وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خصوصی خطاب کیا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت ایک خطرناک راستے پر نکل چکاہے اور جس راستے پر بھارت نکل چکاہے اس سے واپسی مشکل ہے، نفرت پر قائم معاشرے کے آخر میں خون ہی ہوتاہے، ہندوستان پھنس چکاہے ورلڈ کمیونٹی کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
یہ پڑھیں: ابھی نندن کے جہاز پر لگے چاروں میزائل میڈیا کے سامنے پیش

وزیراعظم نے بتایا کہ گزشتہ برس ہمیں پتہ تھا کہ بھارت پلوامہ واقعے کے بعد کچھ کرےگا، لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے پرایک پیج پرتھیں، مجھے صبح 3 بجے ایئرچیف نے فون پر بھارتی حملے کا بتایا، ہم بھارت کو اسی وقت جواب دے سکتے تھے لیکن ہم نےبھارت کو اگلے روزجواب دیا، ہماری جوابی کارروائی ایک میچور ملک جیسی تھی، بھارتی جارحیت کا جس طرح جواب دیا دنیا یاد رکھے گی، بھارتی پائلٹ کی واپسی بھی ایک میچورقوم کی نشانی تھی۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان تمام پڑوسیوں سےامن چاہتاہے، گزشتہ برس 26 فروری کو ہمسائے ملک نے جارحانہ اقدام کیا، پھر بھی ہماراپہلاپیغام تھاکہ بھارت جارحیت سے بازرہے، لیکن جب بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا تو 27 فروری کو پاکستان نے بھارت کو موثر جواب دیا۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومتیں اورسربراہ تبدیل ہوتےرہتےہیں لیکن کشمیر پرہماراموقف کبھی تبدیل نہیں ہوا، مسئلہ کشمیرکےحوالے سے پوری قوم کی ایک ہی آوازہے، مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے5اگست کااقدام ناقابل قبول ہے، بھارت کے یکطرفہ اقدامات خطے کے امن کیلئے بڑا خطرہ ہیں، مقبوجہ کشمیرعالمی سطح پرایک متنازع علاقہ ہے اور یورپی پارلیمنٹ میں اس پر سیرحاصل بحث کی گئی، کیادو ایٹمی قوتیں متنازع علاقےکےپرامن بارے سوچ سکتی ہیں؟۔