Official Web

پی سی بی کرکٹ ڈپلومیسی میں فیل

’بنگلہ دیش نے ہمیں باضابطہ طور پر سیریز کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا اخبارات سے ہی معلومات حاصل ہو رہی ہیں‘‘

ایک اعلیٰ آفیشل کاگذشتہ دنوں سامنے آنے والا یہ بیان پی سی بی کی بے بسی ظاہر کررہا تھا، کتنے افسوس کی بات ہے کہ بنگلہ دیش ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھ رہا کہ خط کا جواب دیا جائے، ان کے بورڈ آفیشلز روز اپنے میڈیا کے سامنے نت نئے بیانات داغتے رہے،آج تو واضح اعلان کر دیا کہ ٹیم ٹیسٹ کھیلنے پاکستان نہیں جائے گی۔

ٹی ٹوئنٹی ٹور بھی پلیئرز کی دستیابی سے مشروط ہے،اس کیس میں بنگلہ دیشی بورڈ ہر روز کوئی موقف سامنے لاتا رہا لیکن بدقسمتی سے پی سی بی خاموش رہا،چیئرمین کی پریس کانفرنس کے بعد کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا،میڈیا ڈپارٹمنٹ ہر روزقائد اعظم ٹرافی یا کسی اور معاملے پر پریس ریلیز جاری کرتے رہتا ہے مگر اس کیس میںچند ہم خیال صحافیوں کو فون کر کے ہی اپ ڈیٹ کیاگیا، یہ ’’خوشخبری‘‘ بھی سنائی کہ کئی روز پہلے لکھے گئے خط کا جواب مل گیا،اب نیا خط بھیج دیا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بنگلہ دیش پاکستانی احسانات بھول گیا اور اب اہمیت دینے کو تیارنہیں، دوسری جانب ہمارے بورڈ نے ایک بار پھر فکسنگ خدشات کے باوجود کئی کھلاڑیوں کو لیگ کیلیے وہاں جانے دیا، اس سے بڑی بے بسی کیا ہو گی کہ اب بھارتی بورڈ اعلان کر رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیڈول میچز کیلیے کسی پاکستانی کرکٹر کو نہیں بلایا جا رہا، سب جانتے ہیں کہ ان دنوں پی ایس ایل کی وجہ سے ہمارے پلیئرز دستیاب نہیں ہوں گے، کیا ہی اچھا ہوتا یہ بات خود بورڈ واضح کر دیتا، مگر مخصوص آفیشلز کی پروجیکشن سے فرصت ملے تو ہی اس حوالے سے کچھ سوچا جائے گا۔

اسی لیے بھارت نے اس سے فائدہ اٹھا لیا، اب دیتے رہو وضاحتیں کون سچ مانے گا، صورتحال بڑی گمبھیر ہو گئی ہے، اگر بنگلہ دیشی ٹیم نہ آئی تو پاکستانی میدانوں کو مکمل آباد کرنے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا، اس سے قبل انگلینڈ سے ویمنز سیریز بھی نیوٹرل وینیو ملائیشیا میں کھیلنا پڑی تھی،ایک طرف یہ خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ آئی سی سی ایونٹ پاکستان میں کرانے کی کوشش شروع ہو گئی، دوسری جانب بنگلہ دیش کو آنے پر قائل نہیں کیا جا سکا، یہ بات سمجھ سے باہر ہے، اس معاملے کو بورڈ درست طرح سے سنبھال نہیں سکا۔

روایتی اناپسندی غالب آ گئی، ایک ای میل بھیج کر سمجھا گیا کہ کام ہو گیا، بنگلہ دیش کئی روز سے نخرے دکھا رہا تھا،2022 کی سیریز پر بات کرنے کا جواز دے کر سی ای او وسیم خان3 ہفتے آسٹریلیا میں رہے، کیا وہ ایک دن کیلیے ڈھاکا نہیں جا سکتے تھے، مگر وہ تو اپنے وطن برطانیہ چلے گئے۔

لیڈر شپ کی جہاں ضرورت تھی وہاں کوئی سامنے نہیں آیا،کیا کسی نے بنگلہ دیش سے پوچھا کہ آپ کے کھلاڑیوں نے تھوک کے حساب سے پی ایس ایل ڈرافٹ کیلیے رجسٹریشن کرائی تھی، اس وقت سیکیورٹی خدشات کہاں چلے گئے تھے؟

اب کہا جائے گا کہ بھارتی ایما پر بنگلہ دیشی ٹیم نہیں آ رہی، یہ نہیں سوچ رہے کہ اس سے نقصان کتنا ہو گا،ہم انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو بھی بلانا چاہ رہے ہیں، کیا ان کے کھلاڑی یہ نہیں سوچیں گے کہ بنگلہ دیشی ٹیم تو جانے کو تیار نہیں ہم کیوں جائیں؟ شہریار خان اور نجم سیٹھی نے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کیلیے جو کام شروع کیا اسے احسان مانی نے بھی آگے بڑھایا مگر بنگلہ دیش سے سیریز نہ ہونا ایک بڑا نقصان ثابت ہو گا، ایسا لگتا ہے کہ پی سی بی کرکٹ ڈپلومیسی کے معاملے میں فیل ہوگیا، اس کا بروقت ایکشن نہ لینا ہمیں کئی قدم پیچھے لے جا سکتا ہے۔