Official Web

دنیا 21 اکتوبر ، 2019ویب ڈیسک ترکی کی شام میں فوجی آپریشن پھر سے شروع کرنے کی دھمکی

انقرہ: ترکی نے کرد ملیشیاکے شمالی شام سے انخلا نہ ہونے کی صورت میں پھر سے فوجی آپریشن کرنے کی دھمکی دے دی۔

عرب خبر رساں ادارے کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولود چاوش نے خبردار کیا کہ اگر کرد ملیشیا نے امریکا کی طرف دی گئی سیز فائر کی ڈیڈلائن کے ختم ہونے سے پہلے خطے سے انخلا نہیں کیا تو ترکی شمالی شام میں دوبارہ فوجی آپریشن شروع کرے گا۔

شمالی شام میں جنگ بندی کے باوجود بمباری کی اطلاعات

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 35 گھنٹے ہیں اور اس دوران کرد ملیشیا انخلا نہیں کرتی تو ہم آپریشن بحال کریں گے، یہ اس لیے بھی ہے کہ ہم نے امریکیوں سے اس پر اتفاق کیا تھا۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کرد باغی امریکی ڈیل پر عمل کرتے ہوئے ان علاقوں سے انخلا کررہے تھے جن کو 9 اکتوبر کے حملے کے بعد ترکی کنٹرول کرتا ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ نے الزام لگایا کہ کرد ملیشیا کے گروپ نے معاہدے کے دوران 30 مرتبہ براہ راست فائرنگ کی جس سے ایک ترکی فوجی بھی ہلاک ہوگیا اس لیے ترکی ان حملوں کا بدلہ لےگا۔

واضح رہے کہ ترکی اپنی سرحد سے متصل شامی علاقے کو محفوظ بنا کر ترکی میں موجود کم و بیش 20 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے اور ترکی کا مطالبہ ہےکہ کرد ملیشیا شمالی شام کی 30 کلو میٹر کی سرحد سے انخلاکرے۔

ترکی نے کرد ملیشیا سے شمالی شام کا سرحدی علاقہ خالی کرانے کے لیے شام میں فوجی آپریشن شروع کیا تھا جسے امریکی مداخلت پر 5 روز کیلئے روک دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ کرد ملیشیا آزاد ملک کے قیام کیلئے سرگرم ہے، عراق میں کردستان کے نام سے ایک خودمختار علاقہ کردوں کو دیا گیا ہے تاہم وہ شام اور ترکی کے کچھ علاقوں کو بھی کردستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جبکہ ترکی کرد ملیشیا کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

2014 میں امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔

ٹرمپ کا طیب اردوان کو لکھا گیا غیر معمولی خط منظر عام پر آ گیا

امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کرد ملیشیا اور جنگجوؤں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔

20 دسمبر 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں داعش کو شکست دینے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔