Official Web

کانگو میں ایبولا کی وبا پھوٹنے سے سیکڑوں افراد ہلاک

کانگو: ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ایبولہ وائرس کی وبا ہولناک صورتحال اختیار کرچکی ہے جس میں اب تک 1000 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں اور ان کی دو تہائی تعداد لقمہ اجل بھی بن چکی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ڈاکٹروں اور طبی عملے پر عوام کے عدم اعتماد اور جھوٹی افواہوں کی وجہ سے ایبولہ کو قابو کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں جس سے ڈی آر سی میں یہ مہلک وبا پھوٹ پڑی ہے۔ اس ضمن میں کانگو کے دو شہروں بینی اور بیوٹیمبو میں ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ تین میں سے ایک فرد ہی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حکومت اس بیماری سے لڑنے میں اس کی کوئی مدد کرسکتی ہے جبکہ 25 فیصد افراد نے کہا کہ ایبولہ وائرس کا کوئی وجود نہیں۔

اس سروے میں 36 فیصد لوگوں نے کہا کہ یہ ایک خودساختہ بیماری ہے جس کا مقصد کانگو کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ جبکہ 1000 میں سے 961 افراد نے کہا کہ انہوں نے اس مرض کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سن رکھی ہیں۔ یہ تحقیق ممتاز طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔

مطالعے کے سربراہ اور ہارورڈ میڈیکل اسکول سے تعلق رکھنے والے اسکالرپیٹرک ونک نے یہ بھی کہا کہ کانگو میں ایبولہ سے متاثرہ افراد کسی ڈاکٹر کی بجائے اپنے محلے اور برادری میں ہی اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’اس طرح مریض ایبولہ کے مصدقہ مراکزی کی بجائے عطائی ڈاکٹروں کے پاس جارہے ہیں جس سے انفیکشن تیزی سے پھیل رہا ہے،‘

سال 2014 سے 2016 تک ایبولہ وائرس پہلے مغربی افریقہ میں نمودار ہوا تھا جس میں 11 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور اب کانگو میں اس کے حملہ دوسری بڑی مہلک وبا کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ 2014 میں ایبولہ کی وبا پھوٹنے کے بعد اس کی ویکسین پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے گئے۔

کانگو میں جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اس بیماری کی ویکسین آزمانا چاہیں گے تو صرف 60 فیصد لوگوں نے ہی ایبولہ ویکسین استعمال کرنے کی حامی بھری۔

1974 میں پہلی مرتبہ کانگو میں ایبولہ وائرس دریافت ہوا تھا اور ایبولہ نامی دریا کے پاس دریافت ہونے کی وجہ سے اس کا نام ایبولہ وائرس رکھا گیا تھا۔