مقامی وقت کے مطابق14 مئی کو مصنوعی ذہانت سے متعلق چین اور امریکہ کے بین الحکومتی مکالمے کا پہلا اجلاس جنیوامیں منعقد ہوا۔ میٹنگ کی مشترکہ صدارت چین کی وزارت خارجہ کے شمالی امریکہ اور اوشیانا کے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل یانگ تھاؤ اور امریکی محکمہ خارجہ کے اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے لیے قائم مقام خصوصی ایلچی سیتھ سینٹر اور وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سینئر ڈائریکٹر ترون چابڑا نے کی۔فریقین نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے خطرات، عالمی نظم و نسق اور متعلقہ خدشات پر عمیق،پیشہ ورانہ اور تعمیری نوعیت کا تبادلہ خیال کیا۔
چین اس بات پر زور دیتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت سب سے زیادہ توجہ مبذول کراتی ہے۔ چین ہمیشہ "لوگوں کے مفادات اور بھلائی کے لیے مصنوعی ذہانت” کے تصور پر قائم رہتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی فائدہ مند، محفوظ اور منصفانہ ہو۔ چین مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس کو مضبوط بنانے کی حمایت کرتا ہے، ایک اہم چینل کے طور پر اقوام متحدہ کے کردار کی حمایت کرتا ہے، اور عالمی سطح پر وسیع اتفاق رائے کے ساتھ مصنوعی ذہانت کے نظم و نسق کا فریم ورک اور معیارات بنانے کے لیے امریکہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ رابطے اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں امریکی پابندیوں اور چین پر دباو ڈالنے پر اپنے اعتراض کا اظہار کیا ہے۔
فریقین نے تسلیم کیا کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی ترقی کو مواقع اور خطرات دونوں کا سامنا ہے۔فریقین نے سان فرانسسکو میں دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے کو نافذ کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔