Official Web

چین کی ترقی عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے: پاکستانی طلباء

تائی یوآن(شِنہوا) چین میں جاری نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی قومی کمیٹی یا "دو اجلاس”، چین میں ملکی سطح پرمنعقد ہونے والے اہم ترین اجلاس ہیں،جواب تک عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اجلاسوں میں نہ صرف لوگوں کےذریعہ معاش پر توجہ مرکوز ہے جو  ہر ایک چینی باشندے سے متعلقہ ہیں، بلکہ  دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کا رواں  سال کےلیے ایک ایسا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عالمی ترقی کے نئے مواقع فراہم کرےگا۔

چین کی  شنسی یونیورسٹی میں ایک پاکستانی طالب علم محمد طارق چینی معیشت میں لچک اور ولولے  کے بارے میں اعداد وشمارجان کر بہت متاثر ہوئے ہیں کہ گزشتہ سال چین کی مجموعی ملکی پیداوار5.2فیصد ترقی کی شرح کے ساتھ  1260 کھرب یوآن (تقریباً 174.8 کھرب ڈالر) تک پہنچ گئی ہے۔

بڑی معیشتوں میں  افراط زر پر قابو پانے کے ساتھ  چین کی شرح نمو  بلند  ہے۔

کیمسٹری میں ماسٹر ڈگری کے طالب علم طارق  نے کہا کہ چین فعال انداز میں اپنی صنعتوں کوترقی دے رہا ہےاور یہاں تک کہ  قومی توانائی کے اہم مرکزی صوبہ شنسی ،جہاں وہ رہائش پذیر ہیں ،میں  صاف توانائی، بڑے اعدادوشمار اکھٹے کرنے والی اور ذہین آلات جیسی ابھرتی ہوئی صنعتیں حکومتی سطح پرتمام شعبوں میں غیرمعمولی طورپر اب بہت زیادہ آلودگی اورتوانائی کی کھپت والی روایتی صنعتوں کی جگہ لے رہی ہیں۔

حکومت کی ورک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال چین کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت دنیا کی کل فروخت کے 60 فیصد سے زیادہ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور کوانٹم ٹیکنالوجی جیسے جدید شعبوں میں اختراعات کو فروغ  حاصل ہورہاہے۔

طالبعلم کا کہنا تھاکہ "عشروں پرمحیط ترقی کی بدولت چین ایک بڑی آبادی والے غریب اور پسماندہ ملک سے اب دنیا کے بااثرترین ممالک کی صف میں آگیا ہے اور اس کی ترقی نے دنیا کے بہت سے ممالک کو نئی راہیں فراہم کی ہیں۔

دوسری طرف میڈیکل کے طالب علم جاوید محمد منصورکو "دو اجلاسوں” میں غیر ملکی طلباء کے مطالعہ اور ملازمت کے موضوع میں  زیادہ دلچسپی ہے۔

انہوں نے کہا کہ’’چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نے ہنر کے بین الاقوامی تبادلے کو فروغ اورغیر ملکیوں کے لیے چین میں کام کرنے،تعلیم کے حصول اور سفر میں آسانیاں پیدا کرنے کا تذکرہ کیا جو کہ چینی حکومت کی طرف سے قدرتی صلاحیتوں کو دی جانے والی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔”

جاوید محمد منصور نے 2018 میں شنسی  میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا آغازکیا۔وباء کے دوران  انہوں نے دیکھا کہ کس طرح چین نےمربوط انداز میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے ساتھ وبا کی روک تھام کی اوراس پر قابو پایا ۔اس چیزنے انہیں چین میں ماسٹر ڈگری کے حصول کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پرعزم بنایا۔

انہیں شنسی کے صوبائی پیپلز ہسپتال میں پریکٹس کرنے کا موقع فراہم کیا گیا،جو کہ شنسی  کے اہم ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔

گزشتہ چھ ماہ کے عرصےمیں وہ نیورو سرجری، سانس، معدے کے امراض وغیرہ کے شعبوں میں کام کرتے آرہے ہیں اورانہوں نے  بہت سا عملی تجربہ حاصل کیا ہے جو کمرہ جماعت میں کبھی نہیں سیکھا تھا۔

"ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ اپنے مریضوں کے ساتھ اس انداز سے برتائو کرو جیسے کہ وہ آپ کے اپنے بچے ہوں۔ میں علاج کے اس فلسفے کو اپنے ملک میں لے جانا چاہتا ہوں،” میڈیکل کے طالب علم کا کہناتھا کہ وہ گریجویشن کے بعد پاکستان میں واپس جاکر اپنے والد کے آنکھوں کے ہسپتال میں کام کریں گے۔

حکومت کی ورک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر پاکستانی طلباء کے لیےبیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آرآئی)  ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے بارے میں ملاقاتوں کے دوران وہ سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جس کے تحت ماحول دوست، صحت اورغربت میں کمی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔

شنسی زرعی یونیورسٹی میں زرعی شعبہ کی دیکھ بھال سے متعلق تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم احمد ریاض بی آر آئی کا حصہ ہیں۔ وہ اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے دوران فصلوں کی غذائیت سے متعلق قدرو قیمت اور خشک سالی سے نمٹنے کےلیے مزاحمت کو بڑھانے کے لیےکھیتی باڑی سے متعلق،فزیالوجیکل اورمالیکیولر طریقوں کو یکجا کرنے پر توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں۔

ان کی ٹیم نے پاکستان میں محمد نواز شریف زرعی یونیورسٹی  کے ساتھ شراکت داری کر رکھی ہے،جو دونوں ممالک کے مابین تعاون کے تحت خانیوال کے کسانوں کو خشک سالی سے بچنے والے بیجوں کی فراہمی اور پانی کے تحفظ کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں مدد دے رہی ہے جس سے بہت سے لوگوں کی آمدن میں دوگنا اضافہ  ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا”زراعت کا شعبہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ شنسی صوبے کی طرح، پاکستان بھی زراعت کے لیے آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہےاور پانی کی قلت ایک اہم تشویشناک پہلو ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں پاکستان واپس جاکر میں ملک کی زرعی ترقی میں اپنا حصہ ڈالوں گا۔ یہاں پڑھائی کے دوران جوعلم اور مہارت، میں نے حاصل کی ہے یہ  پائیدار زرعی طریقوں اور اقدامات کو اپنانے میں قابل قدر ثابت ہوں گے جو پاکستان میں زرعی شعبے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

چین نے 2024 کے لیے اقتصادی ترقی کا ہدف تقریباً پانچ فیصد مقرر کیاہے جبکہ ایک کروڑ20 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کےلیے حکومت کو اس سال بہت زیادہ محنت سے کام کرنا ہے۔