Official Web

اقتصادی مسائل کے حل میں آرمی چیف کا کردار

تحریر: طاہر فاروق

ایڈیٹر انچیف

روزنامہ ”اتحاد” اسلام آباد/ ایبٹ آباد/ پشاور/کراچی

نائب صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرز
چند روز قبل آرمی چیف نے کاروباری برادری سے طویل ملاقات کی۔ اس ملاقات کا ہونا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا جیسے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کوئی بہت غلط کردیا ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملک اس وقت شدید ترین اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری تو دور کی بات غیر ملکی سرمایہ کار عملاً کاروبار بند کر چکے ہیں۔ ڈالر بے قابو ہو چکا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں نے عام آدمی کی زندگی دوبھر ہی نہیں جہنم بنا کر رکھ دی ہے۔ ایسے میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ان ملاقاتوں کو سراہا جاتا بلکہ ایسے اقدامات میں اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کے اقتصادی مسائل پر قابو پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان کی صنعتیں آباد ہوں۔ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہو پالیسیوں میں تسلسل رہے۔ حالت یہ ہے کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہوئے ہیں ایسے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کیا چپ اور خاموش تماشائی بن کر رہ سکتے ہیں؟ پاکستان کی فوج عوام کی فوج ہے ان سطور کو چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے لیکن یہ حقیقت ہے۔
آرمی چیف اور ملک کی تاجر برادری کے نمائندوں کے درمیان کراچی اور لاہور میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں وزیراعظم کی زیر قیادت خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے ذریعے تمام وسائل کو متحرک کرکے ملکی معیشت کی بحالی کے منصوبے پر اظہار خیال کیا۔ .چیف آف آرمی سٹاف اور SIFC کی اپیکس کمیٹی کے رکن سید عاصم منیر نے کاروباری برادری کو یقین دلایا کہ وہ اوپن اور انٹربینک مارکیٹوں میں ڈالر کے نرخوں میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنے کے علاوہ منی ایکسچینج کو ٹیکس کے دائرے میں لانے ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر سمگلنگ کی روک تھام اور ٹیکس وصولی میں بہتری پیدا کرنے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور دیگر ممالک سے 100 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں SIFC کی کوششوں میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پائیدار اقتصادی بحالی کے لیے، SIFC کو صرف بیرونی سرمایہ کاری پر نہیں بلکہ ساختی اصلاحات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔کاروباری شخصیات کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں کے دوران جنرل عاصم منیر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ مختلف شعبوں میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں بڑے پیمانے پر مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں یہ سرمایہ کاری ہماری معیشت پر مثبت اثر چھوڑے گی۔ اس سے ملک میں ڈالر آئے گا، روپیہ مضبوط ہو گا اور ہمارے فاریکس سے متعلق مسائل حل ہوں گے۔ تاجر برادری کے رہنمائوں نے آرمی چیف سے ملاقاتوں کے دوران مغربی اور شمال مغربی سرحدوں پر سمگلنگ سمیت مختلف مسائل پر روشنی ڈالی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ جب یہ اہم مسئلہ زیر بحث آیا تو آرمی چیف نے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی جو سمگلنگ کو بہت مضبوطی سے کنٹرول کرے گی۔ ان ملاقاتوں اور جنرل عاصم منیر کے عزم سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ عوام کے فائدے کے لیے ہر طرح سے بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنے کے لئے وہ پرعزم ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی کاروباری برادری کے ساتھ گفت و شنید کو عام طور پر جہاں مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، وہیں معاشی ماہرین انہیں ایک مختلف زاویے سے بھی دیکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کی کوششیں سیاسی غیر یقینی صورتحال کو ختم کرکے اور وقت پر عام انتخابات کے انعقاد کے ذریعے کی جانی چاہئیں۔لیکن بیوروکریسی کی جانب سے فوری فیصلہ سازی پر زور دینے میں آرمی چیف کا کردار یقینا قابلِ ستائش ہے۔ان کی رائے ہے کہ SIFC کا کردار صرف ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) لانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ساختی اصلاحات متعارف کرانے پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔”2015 اور 2020 کے درمیان کی مدت کے دوران قرضوں کی صورت میں یا دیگر قسم کی آمدن کی صورت میں ملک کو 62 بلین ڈالر کی ایف ڈی آئی موصول ہوئی۔لیکن اتنی بڑی سرمایہ کاری کے باوجود، ہم اب بھی قرض کے لیے IMF کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ حکومت کو ٹیکس کی بنیاد کو وسیع اور بہتر بنانے کے لیے کچھ ساختی اصلاحات مثلاً ٹیکس کی وصولی، قرضوں کی ادائیگی، سرکاری اداروں کی نجکاری اور ٹیکس کی سہولت کا نظام متعارف کرنے کا پختہ فیصلہ کرنا ہو گا۔
وفاقی حکومت نے رواں سال 17 جون کو” ایس آئی ایف سی” کی دو کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کا مقصد خلیجی ریاستوں سے دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا۔نوٹیفکیشن کے ذریعے شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے وزیراعظم کی سربراہی میں” ایس آئی ایف سی ”کی ایک ”اپیکس کمیٹی” تشکیل دی تھی۔ اس کے ارکان میں 9 وفاقی وزرائ، خصوصی دعوت کے ذریعے آرمی چیف ، تمام وزرائے اعلیٰ، ایک قومی رابطہ کار (پاک فوج سے)اور وزیراعظم کے معاون خصوصی جو کمیٹی کے سیکرٹری ہوں گے شامل ہیں۔بعد میں، بورڈ آف انویسٹمنٹ (BoI) آرڈیننس، 2001 میں ترمیم کے ذریعے SIFCکی تشکیل اور دائرہ کار کو بھی قانون کا حصہ بنایا گیا۔ SIFC ایک طاقتور ادارہ ہے جو سرخ فیتے کو ختم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جس سے NOCs، رقم کی واپسی، منظوری وغیرہ سے متعلق مختلف مسائل کو جلد حل کرنے پر زور دیا گیا تھا لیکن سب سے اہم توجہ طلب مسئلہ نجی شعبے کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔اس پیشرفت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اب پاکستان کی معاشی بقا کی جنگ کو محاذ سے آگے بڑھائیں گے۔حالیہ ملاقاتوں میں انہوں نے معیشت کی اصلاح کے لیے ایک بلند نظر منصوبے کو نافذ کرنے کا عزم کیا۔
آرمی چیف کو اس وقت صرف اور صرف پاکستانی قوم کا مفاد مدنظر رکھنا چاہئے۔ کوئی کیا کہتا ہے اس کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ انہیں اور ان کی ٹیم کو مخلصانہ طور پر پاکستان کے ہر بیمار شعبے کی Restructuring کے لئے عملی اقدامات اُٹھانے چاہئیں۔ پاکستان ایک باوسیلہ ملک ہے۔ قوموں کی صفوں میں اپنی عزت بحال کرنی چاہئے۔ خطے کے ممالک کی طرف دیکھیں کیسے وہ ترقی کر رہی ہیں۔ کیا ذلت ورسوائی ہمارے نصیب میں ہی لکھی ہے؟ ایسے میں آرمی چیف کے اقدامات کو سراہنا چاہئے۔