Official Web

چینی صدر مملکت شی جن پھنگ کی اقوام متحدہ کی 75 ویں جنرل اسمبلی میں اہم تقریر

چینی صدر  مملکت شی جن پھنگ نے بائیس تاریخ کو اقوام متحدہ کی 75 ویں جنرل اسمبلی میں اہم تقریر کی۔

شی جن پھنگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کووڈ-۱۹ کی وبا سے لڑرہی ہے۔ اس دوران مختلف ممالک کے لوگوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھا اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے ، جس میں بڑی آفات کا سامنا کرتے ہوئے انسانیت کی ہمت ، عزم ، اور دیکھ بھال کی صفات کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اور تاریک لمحے کو روشن کیاگیا ہے۔آخرکار انسانیت کی جانب سے وبائی مرض پر قابو پا لیا جائے گا  اور فتح دنیا کے عوام کی ہوگی۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین دیگر ممالک کے ساتھ انسداد وبا کے تجربات اور تشخیص اور علاج کی ٹیکنالوجی کا اشتراک جاری رکھے گا ، ضرورت مند ممالک کو مدد اور معاونت فراہم کرے گا ، انسداد وبائی امراض کے میدان میں عالمی استحکام کو یقینی بنائے گا ، اور وائرس کا سراغ لگانے اور اس کی ٹرانسمیشن راستوں کا تعین کرنے کے لئے عالمی سائنسی تحقیق میں فعال طور پر حصہ لے گا۔ چین میں متعدد ویکسینیں اس وقت تیسرے مرحلے کے کلینیکل ٹرائلز میں داخل ہوچکی ہیں۔ تحقیق و ترقی مکمل ہونے اور استعمال میں لانے کے بعد ، انہیں عالمی سطح پر عوامی مصنوعات کے طور پر پیش کیا جائے گا اور پہلے ترقی پزیر ممالک کو فراہم کیا جائے گا۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی ملک دوسرے ممالک کی مشکلات سے نفع حاصل نہیں کرسکتا اور دوسرے ممالک کی ہنگامہ آرائی سے استحکام حاصل نہیں کرسکتا۔ اگر آپ اپنی پریشانیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرتے ہیں تو ، جلد یا بدیر دیگر ممالک کے خطرات آپ کے اپنے لئے چیلنج بن جائیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ ایک بڑے خاندان اور باہمی تعاون کا تصور قائم کیا جائے ، نظریاتی تنازعات کو ترک کیا جائے ، تہذیبی تنازعات کے جال کو توڑا جائے ، اور مختلف ممالک کے آزادانہ طور پر منتخب کردہ ترقیاتی راستوں اور ماڈلز کا احترام کیا جائے ، تاکہ دنیا متنوع ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ معاشی عالمگیریت کے عام رجحان کے پیش نظر ، شتر مرغ کی طرح اپنے سر کو ریت میں دبا لینا اور آنکھیں موندنے کا ڈرامہ کرنا ، یا شیخ چلی  کی طرح نیزہ لہرانا ، سب تاریخ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔آج انسان ایک دوسرے سے جدا ہونے اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کی حالت میں واپس نہیں ہوسکتا۔ ہم معاشی عالمگیریت کے چیلنجوں سے بچ نہیں سکتے۔ ہمیں امیر اور غریبوں کے مابین پائے جانے والے فرق اور ترقی کے فرق جیسے بڑے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔

چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے بائیس تاریخ کو اقوام  متحدہ کی 75ویں جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں واضح کیا کہ بنی نوع انسان کو قدرت کے  بار بار  انتباہات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف شعبوں میں عالمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں  سے نمٹنے کے لیے طے کردہ  "پیرس معاہدے ” پر عمل درآمد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت  کرہ ارض کا تحفظ سب سے لازمی اقدام ہے لہذا ہمیں ماحول دوست ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ تمام ممالک کو  اس حوالے سے فیصلہ کن اقدامات  اختیارات کرنے  چاہییں  اور  تخلیق ،ہم اہنگی ، ماحول دوست ، کھلے پن اور مشترکہ مفادات پر مبنی ترقی کے نئے تصور پر عمل کرنا چاہیئے ۔  انہوں نے اپیل کی کہ سائنسی و تیکنیکی انقلاب کے نئے دور اور صنعتی  تبدیلی کے تاریخی موقع سے فائدہ  اٹھاتے ہوئے وبا کے بعد کے دور میں ماحول دوست عالمی معیشت کی ترقی کو فروغ دیا جائے ۔

شی جن پھنگ نے زور دے کر کہا کہ یہ وبا نہ صرف  مختلف ممالک کی حکومتوں   کی صلاحیت کا امتحان ہے بلکہ عالمی حکمرانی کے نظام کا بھی امتحان ہے۔ ہمیں کثیرالجہتی کی راہ پر گامزن رہنا ہوگا اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اس بین الاقوامی نظام کی حفاظت کرنا ہوگی۔ عالمی انتظام و انصرام  کے لئے وسیع مشاورت ، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے اصول کو برقرار رکھنا چاہئے ، تمام ممالک کے لئے مساوی حقوق ، مساوی مواقع اور مساوی قوانین کو فروغ دینا چاہئے ، اور  یہ سب کچھ پرامن ترقی ، تعاون اور جیت جیت کے تاریخی رجحان کے مطابق ہونا چاہئے۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ ممالک کے درمیان اختلافات کا ہونا معمول کی بات ہے اور ان اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے مناسب طریقے سے حل کیا جانا چاہئے۔ ممالک کے مابین مقابلہ ہوسکتا ہے ، لیکن یہ مثبت اور صحت مند  ہونا چاہئے ، اور اس مقابلے کے دوران اخلاقی سطح اور بین الاقوامی اصولوں کو برقرار رکھنا چاہئے۔ ایک بڑا ملک بڑا نظر آئے ، زیادہ سے زیادہ عوامی مصنوعات مہیا کرے ، اپنا بڑے ملک کا کردار نبھائے، اور  ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین دنیا کا سب سے بڑا ترقی پزیر ملک ہے اور وہ پرامن ترقی ، کھلی ترقی اور مشترکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ ہم کبھی بھی تسلط ، توسیع یا اثر و رسوخ کے حصول کی کوشش نہیں کریں گے۔ ہمارا کسی بھی ملک کے ساتھ سرد جنگ لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ، ہم تنازعات کو دور کرنے اور تنازعات کے حل کے لئے بات چیت کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ہم تنہا کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کرتے ، ہم جیتنے یا ہارنے کی کوشش نہیں کرتے ، اور ہم بند طریقے سے کام کرنے کا سوچ بھی نہیں کر  سکتے ۔  اس لئے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کریں گے۔