Official Web

نور مقدم کیس کے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر

 اسلام آباد: عدالت نے نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کردی جب کہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین نے ضمانت کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔

ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد عطا ربانی نے نور مقدم کیس پر سماعت کی، پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر سمیت ذاکر جعفر،عصمت آدم،افتخار،جمیل اور مالی جان محمد سمیت تھراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور 6 ملازمین بھی عدالت پیش کئے۔

دوران سماعت فاضل جج نے ملزم ظاہر جعفر سے استفسار کیا کہ گزشتہ سماعت میں آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کو وکیل کرنا ہے، اب شہادتیں آنی ہیں آپ کو وکیل کی ضرورت ہے، کیا رضوان عباسی آپ کے وکیل ہیں،  جس پر ظاہر جعفر نے کہا کہ مجھے وکیل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، مجھے نہیں معلوم شاید بھائی نے وکیل کیا ہو۔ امریکی سفارتخانے نے مجھے وکیل فراہم کرنے پیشکش کی ہے،  امریکی سفارت خانے نے ایک فہرست مجھے بھیجی ہے لیکن مجھے ابھی تک وہ فہرست نہیں ملی، مجھے آزادنہ طور پر بات کرنے کا موقع دیا جائے، میں 90 روز سے زیر حراست ہوں، عدالت کا کیا پلان ہے۔ فیصلہ کب آئے گا؟.

ملزم ظاہر ذاکر جعفر کی بات پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا پلان نہیں ہوتا عدالتی کارروائی ہوتی ہے، آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں جو بھی ہوگا وہ آپ کو بتا دیں گے۔

دوران سماعت دیگر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے فیئر ٹرائل کا تقاضا کرتا ہے، ملزم کو معلوم ہی نہیں کہ چالان کے ہمراہ اس کے خلاف کیا ثبوت ہیں، چیزیں خفیہ رکھ کر فیئر ٹرائل کا حق پورا نہیں ہو سکتا، فرانزک رپورٹ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ریکارڈنگز ہمیں فراہم کی جائیں، فرد جرم عائد کرنے کے لیے سات روز کا وقت کم ہے چار ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے  ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی ایک روز کے لیے موخر کردی۔

دوسری جانب ملزم ظاہر جعفر کے والدین نے ضمانت کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ ذاکر جعفر اور والدہ عصمت ذاکر نے اپنے وکیل کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آبادہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں کیس کا فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے۔