یکم ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ نےنوول کوروناوائرس کے ماخذ کی کھوج سے متعلق ایک اداریہشائع کیا جس میں حقائق کو بری طرح مسخ کر کےپیش کیا گیاہے۔ امریکہ میں چینی سفارتخانے کے ترجمان نے فوری طور پر واشنگٹن پوسٹ کےاداراتی بورڈ کے نام ایک خط بھیجا جس میں حقائق کی روشنی میں معاملات کی وضاحت کی گئیلیکن واشنگٹن پوسٹ نے اس خط کو شائع کرنےسے انکار کر دیا۔
اس خط میں چینی سفارتخانے نے واضح کیا ہےکہ چین نے دو مرتبہ عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے چین میں وائرس کے ماخذ کی تفتیش کےعمل کو قبول کیا اور اس سلسلے میں بھرپورمعاونت فراہم کی ہے۔
دوسری جانب امریکی میڈیا سمیت متعدد ماہریننے فورٹ ڈیٹرک بائیو لیب اور نارتھ کیرولائنایونیورسٹی کے معاملات پرتحقیقات کرنے کی اپیلکی ہے جہاں کورونا وائرس پر تحقیقات جاری رہی تھیں لیکن امریکہ نے اس معاملے پر ابھی تک کوئی معاونت فراہم نہیں کی ہے۔
اس کے علاوہ ،وبائی صورتحال کی حقیقی ٹائم لائنپر بھی توجہ دی جانی چاہیے ۔اطلاعات کےمطابق،چین میں رپورٹ ہونے والے پہلے کیسسے قبل ہی امریکہ اور اٹلی میں نوول کورونا وائرس سے ہونے والے نمونیا سے ملتے جلتے کیسزرونما ہوچکے تھے۔
مذکورہ تمام معلومات ڈھکی چھپی نہیں ہیں نہ ہی یہکوئی من گھڑت معلومات ہیں ، ایسی وباوں کےانسداد کے لیے دنیا کے عوام کو حق ہے کہ وہحقیقت جانیں ،چینی عوام جو وبا سے شدید متاثر ہوئے وہ تو یہ حقیقت جاننے کے زیادہ حق دارہیں ۔ اگر امریکہ وائرس کے "لیبارٹری سےاخراج ” کی "کہانی ” پر قائم ہے پھرتو وائرسکے ماخذ کے سراغ کی خاطر امریکہ کو فورٹڈیٹرک لیب اور نارتھ کیرولائنا یونیورسٹی کیتفتیش کی اجازت بھی دینی چاہیے،ساتھ ہی ساتھدنیا کے مختلف علاقوں میں بھی وائرس کے ماخذ کی کھوج کی جانی چاہیئے تاکہ حقائق بالکل واضح ہوسکیں ۔