Official Web

کولیسٹرول اور سرطان کے درمیان تعلق دریافت

نارتھ کیرولینا: عام حالات میں جسمانی خلیات (سیل) ازخود فنا ہوتے اور ان کی جگہ نئے خلیات پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن کینسر کے مرض میں یہ نہیں ہوتا اور وہ خلیات رسولیوں کی شکل میں جمع ہوجاتےہیں۔ اب تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں کولیسٹرول کا کردار بھی قدرے اہم ہوتا ہے۔

اگرچہ چھاتی کے سرطان میں مسلسل بڑھتے ہوئے کولیسٹرول کا کردار پہلے بھی سامنے آتا رہا ہے لیکن اسے پوری طرح سے سمجھا نہیں گیا تھا۔ اب ڈیوک کینسر انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے اس عمل کا طریقہ واردات دریافت کرلیا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح کولیسٹرول چھاتی کے سرطانی خلیات کو اس درجے تک لے جاتے ہیں کہ وہ ختم نہیں ہوتے اور رسولیوں کی صورت میں بڑھتے رہتے ہیں۔ پھر ایسے ہی خلیات بدن کے دیگر حصوں تک پہنچنے لگتے ہیں۔

’کئی اقسام کے کینسر خلیات، جب بدن کے دیگر حصوں تک پھیلتے ہیں تو مرنے لگتے ہیں اور یہ عمل میٹا اسٹیسائز کہلاتا ہے۔ لیکن بعض خلیات اس سفر میں مرتے نہیں کیونکہ وہ خود کو مرنے سے بچالیتے ہیں۔ اس عمل میں کولیسٹرول اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی اہم مثال چھاتی کا سرطان ہے،‘ کینسر کے ماہر پروفیسر ڈونلڈ مک ڈونلڈ نے بتایا جو اس تحقیق کے مرکزی ماہر بھی ہیں۔
اس سے قبل وہ چھاتی کے سرطان کی ایک قسم ایسٹروجن پازیٹو اور کولیسٹرول کے درمیان تعلق تلاش کرچکے ہیں۔ یعنی ایسٹروجن ہارمون سے پیدا ہونے والے کئی اقسام کے سرطان، کولیسٹرول سے اپنا ایندھن لیتے ہیں۔ اب انہوں نے چوہوں پر تجربات کئے اور دیکھا کہ اپنے اصل مقامات سے بدن کے دیگر مقامات تک جانے والے کینسر خلیات کولیسٹرول استعمال کرتے ہیں۔

لیکن یہاں زندہ بچ جانے والے سرطانی خلیات میں ایک اور خاصیت پیدا ہوجاتی ہے جس میں وہ خلوی تناؤ (سیل اسٹریس) سے مرتے نہیں بلکہ اپنا پھیلاؤ جاری رکھتے ہیں اور جسم کے دیگر مقامات کو بھی سرطان زدہ کرتےہیں۔ یہ عمل بریسٹ کینسر اور جلد کے سرطان میں بھی دیکھا گیا ہے جو مسلسل پھیلتے چلے جاتے ہیں۔

اس پورے عمل کو سمجھتے ہوئے علاج کی نئی راہیں ہموار ہوں گی اور ہم کینسر کو بہتر انداز میں قابو کرسکیں گے۔