Official Web

امریکہ میں جدید غلامانہ نظام کب تک ختم ہو گا؟

زینا ایمیوور صرف ۱۵ برس کی تھی جب وہ اپنے ملک ٹوگو سے امریکہ پہنچی ۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ امریکہ میں کئی سال تک جبری مشقت کی زنجیروں میں جکڑی زندگی اس کی منتظر تھی۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۰۷ تک زینا جیسی۲۰ سے زائد لڑکیاں انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہ کے ہاتھوں امریکہ تک پہنچیں ۔ یہ لڑکیاں بغیر کسی تنخواہ کے ہفتے کے ساتوں دن ایک ہیئر سیلون میں کام کرنے پر مجبور تھیں۔نیو جرسی کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے اس بات پر یقین کرنا شاید بہت ہی مشکل ہو گا کہ ۲۰۱۰ میں بھی انسانوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو کہ نا قابلِ برداشت ہے۔
"غلامانہ نظام” امریکی تاریخ کا ایک انتہائی بدنما داغ ہے جس کے اثرات  ابھی تک امریکہ میں موجود ہیں ۔متعلقہ تنظیم کی تحقیقات کے مطابق امریکی نظام میں مزدوروں کے حقوق و مفادات کی خلاف ورزی کے مسائل موجود ہیں۔نیز امریکی وزارت خارجہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ جبری مشقت،پٹے داری  ،جبری غلامی اور سیکس ٹریفکنگ کا ” منبع ،ذریعہ اور منزل” ہے۔امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے یو این کے کنوینشن برائے حقوقِ اطفال کی منظوری نہیں دی۔متعلقہ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تقریباً پانچ لاکھ مزدور بچے زرعی مزدوری کرتے ہیں ۔ ۲۰۰۳ سے ۲۰۱۶  تک امریکہ میں ۲۳۷ مزدور بچےزرعی حادثات میں ہلاک ہوئے۔

%d bloggers like this: