Official Web

سپر پاورز اپنی گیم کھیل کر چلی جاتی ہیں، نتائج ہمیں بھگتنا پڑتے ہیں: فواد چودھری

اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو اپنے مفاد کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ سپر پاورز اپنی گیم کھیل کر چلی جاتی ہیں لیکن نتائج ہمیں بھگتنا پڑتے ہیں۔ ہم معاشی بہتری کے لئے خطے میں امن اور استحکام چاہتے ہیں

انہوں نے یہ بات پاک افغان یوتھ فورم کے زیر اہتمام پاک افغان میڈیا کانکلیو کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ مستحکم افغانستان کے ذریعے پورے خطے کو وسطی ایشیا اور یورپ سے ملانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے، معاشی بہتری کے لئے خطے میں امن اور استحکام کے خواہاں ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ ایک دوسرے سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے تعلقات اونچ نیچ کے باوجود مستحکم ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے لوگ مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لوگ ہمارے اپنے اور ایک ہی قبائل کے لوگ ہیں، ان کے ساتھ ہماری قربت ہے، ہماری زبان اور ثقافت ایک جیسی ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تنائو بھی رہا اور محبت بھی، ہمارے تعلقات اونچ نیچ کے باوجود آج بھی مستحکم ہیں، یہی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنائو کی کیفیت تاریخ کا جبر تھا۔

سرکاری خبر رساں اداے اے پی پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ روس اور امریکا نے کابل پر قبضہ کیا اور نتائج ہمیں بھگتنا پڑے۔ القاعدہ نے نیویارک میں کارروائی کی جس کے نتیجہ میں افغانستان کے اندر صورتحال خراب ہوئی، افغانستان میں امریکا کی پالیسی ناکام ہوئی تو اس کے نتائج افغانستان اور پاکستان دونوں بھگت رہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 1988ء میں جب افغانستان میں بحران ختم ہوا تو یو ایس ایس آر اور امریکا تو وہاں سے چلے گئے لیکن سارا بوجھ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑا۔

فواد چودھری ن نے کہا کہ ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں چھ ہزار کے قریب افغان طلبہ زیر تعلیم ہیں، آج یہ بچے خود بتا رہے ہیں کہ پاکستان نے انہیں مواقع فراہم کئے۔ اس وقت 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، ماضی میں ہم نے تقریباً 50 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کی جو افغانستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ پاکستان کا فرض تھا کہ وہ اس جنگ میں افغان عوام کا ساتھ دے اور ہم نے وہی کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اگر افغانستان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو اس سے پناہ گزینوں کا ایک اور بحران پیدا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے لوگ اپنا نکتہ نظر پیش کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے قیام امن کے مقصد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، اس بارے میں ہمارا نکتہ نظر واضح ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ مستحکم افغانستان کے ذریعے پورے خطے کو وسطی ایشیا اور یورپ سے ملانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں استحکام آئے اور اس کے نتیجے میں ہم گوادر سے لے کر ازبکستان تک ریلوے ٹریک بچھا سکیں۔ اس سے وسطی ایشیا کو گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں اور ہمیں وسطی ایشیا کی مارکیٹس تک رسائی حاصل ہوگی، یورپی یونین اور سی پیک کو آپس میں منسلک کیا جا سکے گا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اس خطے کا اقتصادی مرکز بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ہمارے تعلقات بھارت سے بہتر ہوتے ہیں تو ہم دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ہوں گے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام سے تجارت کے لئے مواقع پیدا ہوں گے، یہ ایک بہت بڑا وژن ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کام کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی نہیں چاہے کہ افغانستان میں لڑائی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور امن ہوگا تو غربت کا بھی خاتمہ ہوگا، افغانستان میں کسی گروپ کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ پورے ملک پر حکمرانی کرسکے، اس لئے افغانستان میں وسیع البنیاد اور جامع حکومت کے خواہاں ہیں تاہم اس کے لئے افغان تنازعہ کے تمام فریقوں کو خلوص نیت سے کام کرنا ہو گا کیونکہ شرائط پر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا تاہم ہمارا کردار محدود ہے، افغانستان کے مسائل افغانستان کے عوام کو خود حل کرنا ہوں گے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے فورم کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے اپنی تجاویز اور آراءدیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی حصے میں بھی سو فیصد اتفاق رائے نہیں ہوتا، ہمارا اپوزیشن کے ساتھ اختلاف ہے لیکن ہم آئین پر متفق ہیں، پوری سیاسی قیادت کو پتہ ہے کہ اس نے آئین کے تحت ہی چلنا ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کی پیروی افغانستان کر سکتا ہے لیکن اتفاق رائے افغان عوام نے کرنا ہے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ افغانستان میں استحکام بے شمار مواقع کا باعث بن سکتا ہے اور ہم اسی سمت میں کام کررہے ہیں۔ اقتصادی استحکام امن کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے جب امن ہو گا تو اس سے خطے میں غربت کے خاتمہ میں مدد ملے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ دو روزہ میڈیا انکلیو میں ہمیں ڈرامہ، فلم اور موسیقی کے شعبوں میں تعاون پر بات کرنی چاہئے، خوشحال خان خٹک پاکستان کے شاعر ہیں لیکن وہ افغانستان کے قومی شاعر ہیں، اسی طرح علامہ اقبال کو افغانستان کے عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔

%d bloggers like this: