Official Web

صدر شی جن پھنگ کی ہدایت پر چین کے دیہی علاقوں میں جاری ٹوائلٹ انقلاب

"مجھے صدر صاحب کا شکریہ ادا کرنا ہے۔انہوں نے میری جان بچائی ہے۔ اگر وہ ہمارے دیہی علاقوں میں بیت الخلا کی تعمیر کے انقلاب کی ہدایت نہ دیتے اور ہمارے گھر میں نئے ٹوائلٹ کی تعمیر نہ کی جاتی تو میں اس بیماری سے نہیں بچ  سکتی تھی۔”

یہ بات میری 60 سالہ کزن  نے کی تھی  جو بیجنگ سے 200 کلومیٹر دور صوبہ حہ بے کے ڈنگ زو شہر کے ایکنواحی گاؤں میں رہتی ہیں۔یاد رہے کہ جون 2019 کی ایک صبح  ، میری کزن  جب باتھ روم گئیں تو انہیں اچانک برین ہیمرج ہوا ، اس وقت صبح کے تین بج رہے تھے۔ انہیں تھوڑی تھوڑی ہوش تھی، وہ نہایت کمزور آواز میں مدد کے لئے پکارتی رہیں تاہم سب لوگ سو رہے تھے کسی کو ان کی آواز سنائی نہیں دی۔ دوگھنٹے سے زیادہ گزرنے کے بعد ، ایک پڑوسی نے ان کی مدد کی پکار سنی، فوری طور پر ایک ایمبولینس بلوائی گئی اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔

بروقت طبی امداد اور کامیاب آپریشن کی وجہ سے ، وہ کچھ ہی مہینوں میں بیماری کے  واضح  اثرات کے بغیر مکمل طور پر صحت یاب ہو گئیں ۔ بعد میں ، ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ خوش قسمتی سے ، وہ نئے ٹوائلٹ کے فلش ٹوائلٹ پر بیٹھی تھیں ، اگر وہ پرانی خستہ حال ٹوائلٹ میں فرش پر بیٹھی ہوتیں تو ، دماغ میں اچانک خون آنے اور دباو بڑھنے سے وہ زمین پر گر سکتی تھیں،یوں ان کے سر میں خون کے دباؤ میں تیزی سے اضافہ ہوتا جس کے نتیجے میں یقینی طور پر ان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہ ہوتا۔ نئے ٹوائلٹ میں وہ دوگھنٹے تک دیوار  سے سر ٹکائے بیٹھی رہیں جس سے اُن کی جان بچ گئی۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ میری کزن کے گھر میں نو تعمیر شدہ ٹوائلٹ   2018 کے آخر میں ہی مکمل ہوا تھا ، کیونکہ مقامی حکومت نے چینی مرکزی حکومت کی متفقہ تعیناتی کے مطابق دیہی علاقوں میں دیہی ٹوائلٹ انقلاب کو فروغ دیا ہے ، اور پرانے خستہ حال بیت الخلا کو تبدیل کردیا ہے۔گاؤں کے ہر گھر میں ایک نیا فلش ٹوائلٹ تعمیر کیا گیا اور نالیوں کا نظام بھی قائم کیا گیا  جس کی وجہ سے مذکورہ بالا کہانی سامنے آئی ہے۔ اسی وجہ سے میری کزن اکثر کہا کرتی تھیں کہ "مجھے واقعی صدر شی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اگر وہ ہمارے دیہی علاقوں میں بیت الخلا کے انقلاب کی ہدیات نہ دیتے تو میری جان ضائع ہو چکی ہوتی"۔

ٹوائلٹ انقلاب:اس سے مراد ترقی پذیر ممالک میں بیت الخلا کو تبدیل کرنے کے اقدام کا حوالہ ہے ، اور اس کی تجویز سب سے پہلے یونیسف نے کی تھی۔ کیونکہ بیت الخلا تہذیب کا ایک اہم اشارہ ہے ، بیت الخلا کی صفائی میں بہتری  براہ راست ان ممالک کے لوگوں کی صحت اور ماحولیاتی حالات سے وابستہ ہے۔ ماضی میں ، چین میں دیہی علاقوں میں بیت الخلاء مٹی کے بیت الخلاء تھے جن میں " ایک گڑھے کے اوپر  بیٹھنے کے  لکڑی کا ایک تختہ موجود  ہوتا تھا  اور اس کے چاروں طرف مٹی کی ایک دیوار ہوتی تھی۔ اس طرح کے خستہ حال بیت الخلاء سےفضلہ اور پیشاب  کھیتوں میں پھینک دیا  جاتا تھا ۔یہ خود گردش کرنے والے زرعی ماحولیاتی نظام کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا ، لیکن سینیٹری کے حالات بہت خراب تھے۔ متعلقہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں 80 ٪متعدی بیماریاں  اسی وجہ سے تھیںاور اس سے پینے کے پانی میں بھی آلودگی شامل ہوتی تھی ۔

چین کے دیہی ٹوائلٹ انقلاب کے حوالے سے دسمبر 2014 میں ، چینی صدر شی جن پھنگ نے صوبہ جیانگ سو میں ایک دورے کے دوران کہا تھا کہ ٹوائلٹ کے مسئلے کو حل کرنا نئے دیہی علاقوں کی تعمیر میں علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ 2015 سے ، ایک "بیت الخلا انقلاب” ملک بھر میں شروع ہوا۔چینی حکومت کی طرف سے ستمبر 2018 میں جاری کردہ "دیہی بحالی کے لئے اسٹریٹجک پلان (2018-2022)” میں ، " دیہی بیت الخلا انقلاب”کو بھی دیہی زندگی کی تبدیلی کی توجہ کا مرکز ی کام قرار دیا گیا۔ 2020 تک ، چین کے مشرقی ، وسطی اور مغربی شہروں کے نواحی علاقوں میں بنیادی طور پر دیہی گھریلو بیت الخلاء کی تعمیر نو مکمل کی گئی۔

رواں سال 23 جولائی کو منعقدہ دیہی ٹوائلٹ انقلاب کے قومی اجلاس میں ، جنرل سکریٹری شی جن پھنگ کی دیہی ٹوائلٹ انقلاب کو آگے بڑھانے کے حوالے سے حالیہ اہم ہدایات سے آگاہ کیا گیا ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس اہم کام کے سلسلے میں رفتار کے بجائے کوالٹی پر زور دینا چاہیے ، تسلسل سے عوام کے فلاح و بہبود سے قریتی وابستہ اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے ۔

صدر شی جن پھنگ کا کہنا تھا کہ ایک بڑے ملک کی حکمرانی ایک چھوٹے سے تازہ کھانا پکانے کے مترادف ہے جس کے لئے تسلسل ، سنجیدگی اور باریک بینی سے کام کرنے  کی ضرورت ہے۔یہ صدر شی جن پھنگ کےملک پر حکمرانی کے فلسفہ کا اہم حصہ ہے۔یاد رہے کہ 19 مارچ  2013 کو ، صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ  میں برکس ممالک کے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے  کہا کہ اتنے بڑے ملک کے بہت سارے لوگ ، اور اتنے پیچیدہ قومی حالات سے نمٹنے کے لئے، قائدین کو قومی حالات کے بارے میں گہری تفہیم ہونی چاہئے ، عوام کیا سوچتے ہیں اور ان کی توقعات کو کیسے پورا کیا جانا ہے۔رہنماوں کو پتلی برف پر چلنے کی طرح احتیاط سے کام لینا چاہیے   ،اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک بڑے ملک کی حکمرانی ایک چھوٹے سے تازہ کھانا پکانے  کے مترادف ہے۔اس سلسلے میں ذرا بھی سست روی کی اجازت نہیں ہوتی اور  پوری دل وجان سے محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

" ایک بڑے ملک کی حکمرانی ایک چھوٹی سے تازہ کھانا پکانے  کے مترادف ہے" ۔یہ قدیم چین کے مفکرلاو زی کا ایک مشہور قول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک پر حکرانی کرنے کے لئے پوری محنت و جدوجہد کرنے  اور  محتاط اور ذمہ دار ہونے کا شعور لازمی ہے۔عوام کے فلاح ہ بہبود سے متعلق ہر ایک چھوٹی موٹی بات پر توجہ دینا ضروری ہے کیونکہ عوام کی زندگیوں کی خوشحالی ہی ملک کی حکمرانی کا اصل مقصد ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین میں دیہی بیت الخلاء میں انقلاب صدر شی جن پھنگ  کی ملک پر حکمرانی کے فلسلے کی ایک زندہ مثالہے۔

%d bloggers like this: