Official Web

جسٹس قاضی فائز نظرثانی کیس کی سماعت، ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائزعیسی نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران ججز کے درمیان تلخ جملوں ‏کا تبادلہ ہوا جس کی وجہ سے سماعت میں وقفہ کرنا پڑا۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ پوری دنیا کیس دیکھ رہی ہے، عدالتی وقار کا ‏خیال رکھنا ہوگا۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ‏ہیں، سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ جذباتی نہ ہوں۔

وفاقی حکومت کے وکیل عامر رحمان نے دلائل میں ‏کہا کہ ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے، سرینا عیسیٰ ‏کو سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا اور ان کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی ‏تھا، ایف بی آر کو ڈیڈ لائن دینے کی وجہ کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا۔

جسٹس قاضی ‏فائزعیسی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی، عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا ‏عیسیٰ کا کیس آرٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معلوم نہیں ایف بی آر عدالتی حکم کے بغیر کارروائی ‏کرتا یا نہیں، ایف بی آر نے تعین کر کے سرینا عیسیٰ کیخلاف رپورٹ دے دی، کوئی ‏ایسا قانون بتائیں خاوند کیخلاف انکوائری بند ہو کر بیوی کیخلاف شروع ہو جائے۔

وکیل ‏عامر رحمان نے کہا کہ ایف بی آر میں جو کارروائی ہوئی وہ عدالتی فیصلے کا نتیجہ ‏تھا، ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت ہوتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ‏فیصلہ تبدیل کرنے اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ کا جسٹس مقبول باقر سے تلخ ‏جملوں کا تبادلہ ہوگیا۔ جسٹس مقبول باقر نے وکیل عامر رحمان کو دلائل کو مختصر رکھنے ‏کا کہا تو جسٹس منیب اختر بولے آپ دلائل جاری رکھیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ‏میری بات میں مداخلت نہ کریں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں کوئی ریس تو نہیں ‏لگی ہوئی۔ جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ کوئی کسی خاص وجہ سے تاخیر چاہتا ہے تو الگ ‏بات ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ بار بار وکیل کو ٹوکتے رہے تو اٹھ کر چلا جاؤں ‏گا۔ جسٹس مقبول باقر بولے اٹھ کر تو میں بھی جاسکتا ہوں۔ ججز کے درمیان تلخی پر دس ‏منٹ کا وقفہ کر دیا گیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ روزہ کی وجہ سے ہم تازہ ‏ہوا میں سانس لے کر آئے ہیں، وقت محدود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو موقف ‏دینے سے روکیں، سپریم کورٹ کے لیے یہ حساس ترین کیس ہے۔

عامر رحمان نے کہا ‏کہ کوشش کروں گا کل اپنے دلائل مکمل کر لوں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ٹیکس ‏کمشنر ذوالفقار احمد کا حکم بھی کل جمع کرائیں۔ جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ یہ بھی بتائیں، کیا نظرثانی میں ہم ٹیکس کمشنر کا حکم دیکھ سکتے ہیں۔ کیس کی سماعت کل ‏تک ملتوی کر دی گئی۔