Official Web

شاہراہ این 25 مکمل ہونے سے بلوچستان میں ترقی کی نئی راہیں کھل گئیں

امریکی تعاون سے تعمیر ہونے والی شاہراہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافہ ہوا

شاہراہ این 25 مکمل ہونے سے بلوچستان میں ترقی کی نئی راہیں کھل گئیں
امریکی تعاون سے تعمیر ہونے والی شاہراہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافہ ہوا
رپورٹ (  ) امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی یو ایس اے آئی ڈی نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے)  کے تعاون سے شاہراہ این 25 کے 111 کلومیٹر کی تعمیر مکمل کی۔ اس منصوبے پر ایف ڈبلیو او نے اکتوبر 2014 میں تعمیر کا آغاز کیا۔ جس میں کچلاک کا بائی پاس روڈ ، 4 پل ، دو وزن والے اسٹیشن اور تین ٹول پلازے شامل ہیں۔ شاہراہ این 25 پاکستان کو افغانستان اور اس کے وسط ایشیائی ہمسایہ ممالک سے جوڑ کر تجارت اور معاشی انضمام میں اضافے کا باعث بنی۔ یہ سڑک چمن سے افغانستان کی سرحد، گوادرپورٹ اور کراچی تک پھیلی ہوئی ہے۔ قلات – کوئٹہ – چمن ہائی وے مجموعی طور پر 231 کلومیٹر پرمحیط ہے۔ یہ سڑک قلات شہر کے قریب سے شروع ہوتی ہے اور افغانستان کے قریب سرحدی شہر چمن پر ختم ہوتی ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ریاض احمد کا کہنا ہے کہ یو ایس اے آئی ڈی نے این ایچ اے کے ساتھ 2013 میں اس سڑک کی تعمیر سے متعلق ایم او یو سائن کیا تھا۔ جس کے بعد 2014 میں شاہراہ کے نا مکمل حصوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس شاہراہ کی تعمیر سے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں سمیت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو بہت فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پہلے کوئٹہ آنے کے لیے قلات اور چمن کے لوگ بہت پریشان ہوتے تھے لیکن اب کوئٹہ پہنچنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ یہ شاہراہ صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع سے گزرتی ہے جن میں قلات، مستونگ، کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبد اللہ شامل ہیں۔
یو ایس اے آئی ڈی کے تعاون سے تعمیر ہونے والی اس سڑک سے علاقے میں تجارت، صحت، پراپرٹی، کنسٹرکشن اور تعلیم کے شعبے میں بہتری آئی ہے۔ کوئٹہ سے قلات تک کا جو سفر پہلےچار سے پانچ گھنٹے میں طے ہوتا تھا اب اسکا دورانیہ کم ہو کر دو سے تین گھنٹے رہ گیا ہے۔ اس شاہراہ پر روزانہ پانچ ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔
نائب صدر کوئٹہ چیمبر آف کامرس بدرالدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ کی کوششوں سے بننے والی اس شاہراہ کی مدد سے کاروبار میں اضافہ ہوا۔ پھل اور سبزی کو سرحد تک لانے لے جانے میں  بڑی آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ روڈ کی وجہ سے سفر آسان ہو گیا ہے جسکا فائدہ تاجروں اور مسافروں کو ہو رہا ہے۔


معروف تاجر نصیب اللہ اچکزئی نے یو ایس ایڈ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اس سڑک سے کاروباری افراد کو سامان چمن پہنچانے میں بہت دشواری تھی، حادثات ہو جاتے تھے کیوں کہ سڑک نا مکمل تھی جس سے تاجروں کا بھی نقصان ہوتا تھا اور کئی گھنٹے لگتے تھے اب چند گھنٹوں میں سامان پہنچ جاتا ہے۔
اس سڑک سے مستفید ہونے والے افراد کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں مریض کو کوئٹہ لے جانا بہت دشوار کن تھا مریض راستے میں ہی مر جاتا تھا لیکن اب اس سڑک کے بننے سے بہت آسانی ہو گئی ہے۔ کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی دوکان بنا رہا ہے تو کوئی مکان بنانے میں مصروف ہے۔ علاقائی کھجور اور پھل سبزی ضائع ہوئے بغیر دیگر شہروں تک پہنچ جاتی ہے۔ سڑک کی تعمیر مکمل ہونے سے یہاں کے لوگوں کے حالات میں بہتری آ رہی ہے۔
مستقبل میں یہ سڑک نہ صرف بلوچستان بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان، فاٹا سمیت دیگرعلاقوں کو بھی ایک دوسرے سے منسلک کرے گی۔ جس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی اور مستقبل میں یہاں انڈسٹریل زون بھی قائم ہوں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں امن، استحکام اور خوشحالی لانے میں مدد حاصل ہوئی جو کہ امریکہ کے عزم کا ٹھوس مظاہرہ ہے۔

اسکے علاوہ یو ایس اے آئی ڈی نے ٹیکنوکونسلٹ (ٹی سی آئی) اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے ساتھ اشتراک کے ذریعے این ایچ اے ملازمین کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا۔ جس سے این ایچ اے کے لئے ملک گیر صلاحیت کو تقویت دینے میں مدد ملی اور اس پروگرام سے اے ڈی بی کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے مواقع بروئے کار لائے گئے۔ اس پروگرام کا مقصد پاکستان میں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کو بڑھانا اور ان میں بہتری لانا ہے۔

   

%d bloggers like this: