چین نے وائرس کا سراغ لگانے کے لئے بہت کچھ کیا ہے، ڈبلیو ایچ او کے ماہرین

گزشتہ ہفتے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین کے  گروپ نے چین میں نوول کورونا  وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے  کا تحقیقی کام مکمل کرلیا تھا۔ماہرین گروپ کے ارکان  نے نہ صرف چین کی طرف سے دکھائی جانے والی شفافیت کی تعریف کی ، بلکہ کچھ مغربی میڈیا اور سیاست دانوں کی طرف سے چین کو بدنام کرنے کے سازشی نظریات کو بھی ترک کردیا۔

تاہم ، "نیو یارک ٹائمز” اور دیگر مغربی میڈیا نے "چین نے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالی” اور "چین اعداد و شمار شیئر کرنے سے انکار کرتا” جیسی غلط خبریں شائع کیں۔ ان رپورٹوں پر  عالمی ادارہ صحت کے متعدد ماہرین نے سخت تنقید کی۔ ماہرین ٹیم کے رکن پیٹر ڈس زاک نے 13 فروری کو ٹویٹ کیا تھا: "نیو یارک ٹائم واقعی بے شرم ہے!”

ایک دن بعد ،  "نیو یارک ٹائمز” نے 14 تاریخ کو ڈس زاک کا  ایک اور انٹرویو شائع کیا۔ اس بار انہوں نے انٹرویو کا مکمل متن سوال وجواب کی شکل میں شائع کیا ۔ اس انٹرویو میں ، ڈس زاک نے مغربی میڈیا کے سامنے کچھ ایسی معلومات کا انکشاف کیا جو پہلے کبھی منظرعام پر نہیں آئی تھیں۔مثال کے طور پر ، چین نے وبا کے ابتدائی مرحلے میں تیزی سے اور پیشہ وارانہ انداز میں کام کیاتھا۔ چینی ماہرین نے وسیع اورتفصیلی تحقیقات اور مطالعات کئے تھے اور وائرس کے  نمونوں کی ایک بڑی تعداد جمع کی تھی

مسٹر ڈ س زاک نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے ماہرین اور چینی سائنسدانوں نے مختلف سائنسی مفروضے ترتیب دیئے ہیں۔ جن کا فی الحال یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جانوروں میں یہ وائرس  پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس بات پر بھی زور دیا کہ نام نہاد "وائرس لیبارٹری سے لیک ہونے” کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ ڈس زاک نے پرزور  الفاظ میں یہ بھی کہا کہ وائرس کے سراغ لگانے سے متعلق مستقبل میں تحقیقی کام سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہئے ، اور کسی سیاسی دلدل میں نہیں پھنسنا چاہئے۔

ڈس زاک نے بتایا کہ اس دفعہ چین میں جو ڈیٹا اور معلومات انہوں نے دیکھی ہیں، وہ چین سے باہر دستیاب نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر ،چینی سائنسی دانوں نے  ووہان کی ہوانان سی فوڈ مارکیٹ میں تفصیلی تحقیقات کیں اور  بہت زیادہ معلومات جمع کیں ، مثلاً دکاندار کون ہیں ،  ان کی سپلائی کہاں سے آئی تھی، اور تصدیق شدہ مریضوں کی پہلی کھیپ کا سی فوڈ مارکٹ سے  کس طرح رابطہ ہوا تھا۔

انہوں نے چینی عملے کے اعلیٰ درجے کے  تعاون اور عمدہ کارکردگی کی تعریف کی۔ ڈس زاک نے نشاندہی کی کہ در حقیقت ، جب 31 دسمبر  دو ہزار بیس کو ہوا نان سی فوڈ مارکیٹ بند کی جا رہی تھی تو چین کے انسداد وبائی امراض کے مرکز  نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم وہاں بھیجی تھی تاکہ وائرس کا  سراغ  لگایا جا سکے۔مسٹر ڈس زاک  نے اس وقت کے چین کے اقدامات کو "بہت وسیع تحقیق” قرار دیا۔ وبا کے ابتدائی مراحل میں ، چینی سائنس دانوں نے  مارکیٹ میں 900 سے زیادہ  نمونے جمع کیے جو ایک بہت بڑا اور مشکل کام تھا۔

ڈس زاک کا کہنا تھا کہ چین اصل میں "ڈائننگ ٹیبل کلچر” کی قدر کرتا ہے اور اگر آپ دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ نہیں کھاتے ہیں تو اسے "بہت ہی بدتمیز ی” سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس بار جب  وہ چین پہنچے ،تو انہیں قرنطین کی وجہ سے دوہفتے تنہائی میں گزارنا پڑے اور انہوں نے کمرے میں تنہا کھانا کھایا۔ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ ووہان کا سفر ” بہت ہی صبرآزما، اعصاب شکن اور چیلنجز سے بھر پور تھا۔

ڈاس زاک نے انٹرویو میں چین اور امریکہ کے وبا کی روک تھام کے موجودہ کاموں کا بھی موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چین پہنچنے کے بعد ، حفاظتی آلات پہننے سے لے کر نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹ کی جانچ پڑتال تک کے تمام طریقہ کار انتہائی سخت اور مکمل تھے ۔لیکن جب وہ نیویارک واپس آئے تو ان کا  تجربہ چین  سے بالکل مختلف رہا۔ کسی نے ان سے قرنطین کرنے اور گھر میں رہنے کا مطالبہ نہیں کیا۔