Official Web

کائنات کے سب سے نرم سیارے نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا

پیساڈینا، کیلیفورنیا: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تین سال قبل دریافت ہونے والا سیارہ واسپ 107 بی اس قدر نرم اور کم کثافت والا ہے کہ ہمارے موجودہ فلکیاتی نظریات کے مطابق، اس سیارے کو وجود میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔واضح رہے کہ دریافت کے وقت ہی واسپ 107 بی کو سب سے کم کثافت والا سیارہ قرار دے دیا گیا تھا جہاں بڑی مقدار میں ہیلیم گیس کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ لیکن اب ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے معلوم کیا ہے کہ اس کی کثافت ہمارے سابقہ اندازوں سے بھی بہت کم ہے۔بتاتے چلیں کہ واسپ 107 بی ایک ایسے سیاروی نظام (پلینٹری سسٹم) کا حصہ ہے جو ہم سے 211 نوری سال دور، برجِ سنبلہ کی سمت میں واقع ہے۔اس سیارے کا شمار نارنجی دیووں (orange giants) کہلانے والے سپر نیپچون قسم کے سیاروں میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کا بیشتر حصہ گیس پر مشتمل ہے۔یہ اپنے مرکزی ستارے (WASP-107) سے لگ بھگ اتنا ہی قریب ہے جتنا ہماری زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ہے۔یہ اپنے سورج کے گرد اتنی تیزی سے چکر لگا رہا ہے کہ صرف 138 گھنٹوں (5.72 زمینی دنوں) میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ واسپ 107 بی کا ایک سال، زمین پر گزرنے والے صرف 5.72 دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔مرکزی ستارے سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے یہ بہت گرم بھی ہے اور اس کا بیرونی درجہ حرارت 462 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ معلوم کیا گیا ہے۔تاہم ان سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس سیارے کی جسامت ہمارے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری (جیوپیٹر) جتنی ہے لیکن اس کی کمیت (مادے کی مقدار) اس سے تقریبا دس گنا کم، یعنی ہمارے نیپچون جیسی ہے۔مطلب یہ کہ اگر واسپ 107 بی سے ایک مکعب سینٹی میٹر مادہ لیا جائے تو اس کی کمیت صرف 0.13 گرام ہوگی۔ اس کے مقابلے میں مشتری کی کثافت دس گنا زیادہ یعنی 1.33 گرام فی مکعب سینٹی میٹر، جبکہ زمین کی اوسط کثافت 5.51 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے (جو واسپ 107 بی سے 42.4 گنا زیادہ ہے)۔کسی سیارے کی اتنی کم کثافت صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے مرکزی حصے یعنی قلب (core) کی کمیت بھی بہت کم ہو۔تازہ تحقیق میں ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ واسپ 107 بی کے قلب کی کمیت ناقابلِ یقین حد تک کم، یعنی زمین کے مقابلے میں صرف 4.6 گنا زیادہ ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ واسپ 107 بی کا 85 فیصد مادہ گیس کی شکل میں ہے۔بظاہر یہ بات بھی بہت زیادہ عجیب نہیں کیونکہ مشتری کے بارے میں یہی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کی مجموعی کمیت کا صرف 5 سے 15 فیصد حصہ قلب کی صورت میں ہے جبکہ مشتری کی 85 سے 95 فیصد تک کمیت دبیز گیس کی صورت میں قلب کے گرد مسلسل حرکت کررہی ہے۔البتہ ماہرین کیلیے یہ بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے کہ واسپ 107 بی اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے کہ جہاں کسی بھاری بھرکم گیسی سیارے کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔

ہمارے مروجہ فلکیاتی نظریات ہمیں یہی بتاتے ہیں۔

 

اگر ہمارے یہ نظریات درست ہیں تو پھر واسپ 107 بی اپنے ستارے سے بہت دور کسی مدار میں بنا ہوگا، جسے آس پاس موجود دوسرے اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کی قوتِ ثقل (گریویٹی) نے دھکیل کر ستارے کے قریب کردیا ہوگا۔

 

لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمیں اپنے مروجہ فلکیاتی نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ تاہم اس سے پہلے ہمیں واسپ 107 بی جیسے اور سیارے دریافت کرنا ہوں گے جو اپنے ستارے سے قریب ہونے کے علاوہ گیسی دیو بھی ہوں۔

 

سرِدست اس بارے میں بحث جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ شاید کئی سال بعد ہی برآمد ہوسکے۔

 

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیل دی ایسٹرونومیکل جرنل کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔