Official Web

آج تک اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ پاکستانی کلچر کیا ہے

کراچی(شوبز ڈیسک)’دیار دل، عہد وفا، عون زارا، گویا اور سنڈریلا’ جیسے ڈراموں میں اداکاری کرنے والے عثمان خالد بٹ کو ان کے بے باک انداز کی وجہ سے کافی سراہا جاتا ہے اور ان سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مرد ہوکر خواتین کے حقوق کی بات کرتے رہتے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے اداکارہ میرا سیٹھی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے ہی کچھ مسائل پر بات کی اور بتایا کہ وہ کیوں آخر خواتین کے حقوق سے متعلق بہت زیادہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔خالد عثمان بٹ نے بتایا کہ دراصل ان کی پرورش ہی ایسے ہوئی کہ وہ خواتین کے حقوق پر بات کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے بچپن میں خواتین پر مظالم کے کچھ واقعات بھی دیکھے، جس کی وجہ سے وہ ان کے حقوق پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم انہوں نے بچپن میں خواتین پر ہونے والے مظالم کی وضاحت نہیں کی۔ایک سوال کے جواب میں خالد عثمان بٹ کا کہنا تھا کہ اداکاری کو پاکستان میں کوئی کام سمجھا ہی نہیں جاتا اور اگر کوئی شخص شوبز انڈسٹری میں آجائے اور کام کرے تو بھی لوگ اس سے سوال کرتے رہتے ہیں کہ اصل میں وہ کیا کام کرتے ہیں؟خالد عثمان بٹ نے بتایا کہ جب انہیں اداکاری کرتے ہوئے 2 سال گزر گئے تھے تو بھی ان سے اہل خانہ کے افراد یہ سوال کرتے رہتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں؟اداکار نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جہاں عام افراد شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد سے متعلق غلط فہمیاں رکھتے ہیں، وہیں شوبز سے وابستہ افراد یعنی ڈائریکٹرز بھی دیگر افراد کے حوالیسے غلط سوچ رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شوبز انڈسٹری میں متنازع شخصیت کو کام نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی خاتون متنازع ہو تو معاملہ اور بڑھ جاتا ہے۔انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ڈرامے میں جب وہ ہدایت کار کے ساتھ اپنے اور ہیروئن سے متعلق بات کر رہے تھے تو انہوں نے ڈائریکٹر کو ایک ہیروئن کا نام تجویز کیا مگر ہدایت کار نے مذکورہ اداکارہ کا نام یہ کہہ کر مسترد کیا کہ وہ متنازع ہیں۔ثقافت کو مذہب سے جوڑے جانے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد عثمان بٹ کا کہنا تھا کہ انہیں آج تک کوئی بھی اس سوال کا جواب نہیں دے پایا کہ پاکستانی کلچر کیا ہے؟انہوں نے مزید وضاحت کی کہ وہ بچپن میں سندھی اور بلوچی فوک گیتوں پر ڈانس کرتے تھے اور ہر فنکشن میں حصہ لیتے تھے مگر انہیں کبھی کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ ڈانس کرنا ہمارا کلچر نہیں۔خالد عثمان بٹ نے مزید کہا کہ اب ہم نے مذہب کو ثقافت کے ساتھ جوڑ کر مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے اور خصوصی طور پر ہم مذہب کو خواتین اور اداکاراں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں اداکار کا کہنا تھا کہ اگرچہ بہت سارے سماجی مسائل پر ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں تاہم اس کے باوجود ہمارے ہاں مسائل حل نہیں ہو رہے اور نہ ہی ہم اس ضمن میں بہتری کی جانب گامزن ہو پا رہے ہیں۔خالد عثمان بٹ نے انٹرویو میں مزید کہا کہ وہ اداکاری کے علاوہ کوریوگرافی اور شاعری سمیت تھیٹر ڈراموں کی ہدایت کاری بھی کرتے ہیں اور انہیں جب کوئی کام کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اسے سر انجام دیتے ہیں۔خالد عثمان بٹ کا انٹرویو دو پارٹس پر مشتمل تھا اور دونوں پارٹس میں انہوں نے شوبز سمیت اپنے کیریئر اور سماجی مسائل پر کھل کر بات کی۔

%d bloggers like this: