Official Web

افغانستان میں آسٹریلوی فوج کے مظالم نا قابل قبول ہیں

حال ہی میں آسٹریلوی وزارت  دفاع نے ایک تحقیقاتیرپورٹ جاری کی جس میں افغانستان میں آسٹریلویفوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کے قتل جیسیانسانیت سوز مظالم کی تفصیل دی گئی ہے۔ عالمیبرادری کی طرف سے اس کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔
تاہم اپنے ملک کے فوجیوں کے ان سنگین جرائمپرآسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے معذرتنہیں کی ، بلکہ اس کے بجائے ، انہوں نےچینی وزارتخارجہ کے ترجمان کی جانب سے سوشل میڈیا  پر پیشکردہ  آسٹریلوی فوج کے مظالم کی مذمت کرنے والے ایک کارٹوںی خاکے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 
جیسا کہ برطانوی اسکالر مارٹن جیکس نے واضح طور پرنشاندہی کی کہ آسٹریلیا  کے وزیر اعظم  کے  لیے  یہ کارٹونی خاکہ غصہ و پریشانی کا باعث نہیں ہے ، دراصل انکے خیال  میں چینیوں کو افغانستان میں آسٹریلوی  اسپیشل فورسز کے قتل کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کا حق نہیں ہے۔

تیس نومبر کو  فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان کےایک ٹویٹ پر تنقید کی جس میں  آسٹریلوی فوجیوں کیجانب سے افغان شہریوں کی ہلاکت پر تبصرہ کیا گیا تھا۔اس حوالے سے فرانس میں چینی سفارت خانے نے یکم دسمبر کو اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ  چاؤ لیجیان کے ٹویٹس حقائق پر مبنی معروضی تبصرے ہیں ، چاؤ لی جیان کی جانب سے جو تصاویر استعمال کی گئی ہیں وہ  چینی مصوروں نے حقائق پر مبنی صورتحالکے تناظر میں بنائی ہیں۔فرانس کی جانب سے  جنگیجرائم اور عام  شہریوں کی ہلاکت پر تو کوئی مذمت نہیںکی گئی ہے بلکہ جنگی جرائم کی مذمت کرنے والوں کو "جانبدار، "جارحانہ” اور "توہین آمیز” قرار دیا گیا ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے بیانات توہین آمیز ہیں جن سے یہ سوال  بھی ابھرتا ہے  کہ ایسے بیانات دینےوالے جنگی مجرموں کے ساتھ کھڑے ہیں یا بین الاقوامی انصاف اور انسانی ضمیر کے ساتھ ہیں۔ ایک ایسا ملک جو "تمسخرانہ خاکوں کے حقوق” کا بھرپور دفاع کرتا ہے ،وہ چینی نوجوان مصوروں کے  ان خاکوں کو کیوں نہیں برداشت کر سکتا ہے؟  یہاں آزادی اظہار کے بارےمیں  کیا گمان کیا جائے؟ ترجمان نے ایسے بیانات کو انسانی ضمیر اور صحیح اور غلط  کے برعکس دوہرا معیارقرار دیا۔