Official Web

قومی اسمبلی اجلاس میں ہنگامہ آرائی، پیپلزپارٹی کے آغا رفیع اللہ کو ایوان سے نکال دیا گیا

اسلام آباد: ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے پیپلزپارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ کو ہنگامہ آرائی پر ایوان سے باہر نکلنے کا حکم دے دیا۔ 

قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت ہوا، ایوان میں ایم ایم اے کے رکن قومی اسمبلی عبدال اکبر چترالی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سے احتجاج کر رہا ہوں کہ آپ کو آج شہدا کیلئے بات کرنی چاہیے تھی، پشاور واقعہ افسوسناک ہے حکومت کو سوچنا چاہیے، ان شہدا کیلئے حاص پیکج کا اعلان ہونا چاہیے، اپوزیشن اراکین حرام کھا رہے ہیں، اپوزیشن ارکان استعفی دیں، میں بھی ان کے ساتھ استعفی دوں گا۔

وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے عبدال اکبر چترالی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کل پشاور میں 12 شہادتوں کا واقعہ دل ہلا دینے والا ہے، قرآن و حدیث پڑھنے والے تو شہید ہوگئے، اگر ہم آج بھی سیاست کرتے رہے توعوام کیاسوچیں گے۔

نور الحق قادری نے کہا کہ اگر ہم آرمی چیف اور مدرسہ اور توہین رسالت پر بھی سیاست کریں گے تو پھر کیا ہوگا، عبد الاکبر چترالی نے جو فتوی دیا ہے کہ ہم یہاں قانون بنانے آتے ہیں، اگر ہم قانون نہیں بناتے تو کیا ہماری تنخواہ اور مراعات حلال ہوگی۔

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک میں گندم کی قیمت 1600 سو مقرر کی گئی لیکن مارکیٹ میں اس وقت 2400 قیمت ہے، 2400 کی ہی امپورٹ بھی کی جارہی ہے، 1600 سے اگر گندم 2 ہزار نہ کی گئی تو اگلے سال گندم ناپید ہو جائے گی، ہم اپنے کسان کو تحفظ نہیں دے رہے، باہر کے فامر کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس وقت عام آدمی کی زندگی مشکل ہو چکی ہے،  ہمارا ملک زرعی ہے تاہم زراعت کو تباہ کیا جا رہا ہے،  گنے کی کاشت کے پیچھے گندم کو تباہ کیا جا رہا ہے،  زراعت سے جی ڈی پی گروتھ بڑھا سکتے ہیں، حکومت کی کسان مار پالیسی ہے،  گندم کی کون سی لابی کو تحفظ دیا جارہا ہے یہ وقت بتائے گا، گندم کی امدادی قیمت 1600 سے 2 ہزار مقرر کی جائے تاکہ کاشت بڑھ سکے۔

لیگی رہنما نے کہا کہ دو سال پہلے گندم سرپلس تھی آج امپورٹ کر رہے ہیں، مہنگائی کی صورت میں عام آدمی نقصان اٹھا رہا ہے، صرف 40 ارب کسان کو دیں تو گندم پوری ہو سکتی ہے، حکومت اپنی اے ٹی ایم کو فائدہ پہنچانے میں مصروف ہے، ہم گندم کی سرکاری قیمت کم مختص ہونے پر واک آوٹ کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں گندم کی قیمت مقرر کرنے پر مشاورت ضرور ہوئی ہے، تین صوبوں کی سفارشات آئی ہیں لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا، اپوزیشن کی تجاویز پر بھی غور کریں گے۔

ایوان میں ہنگامہ آرائی اس وقت شروع ہوئی جب کہ وفاقی وزیر غلام سرور کے بعد پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ نے اسپیکر قاسم سوری سے بات کرنے کی اجازت مانگی، اسپیکر کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر آغا رفیع نے شور شرابا شروع کردیا۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے آغا رفیع اللہ کو باہر نکالنے کی ہدایت کر دی۔ تاہم آغا رفیع نے مزاحمت کرتے ہوئے کہا کہ میرے قریب کوئی نہ آئے، اور اپوزیشن کی مزاحمت پر سارجنٹ ایٹ آرمز آغا رفیع اللہ کو باہر نکالنے میں ناکام رہے۔

آغا رفیع اللہ کے رویئے پر پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے ڈپٹی اسپیکر سے معافی مانگی اور کہا کہ ہاؤس میں ایسا نہیں ہونا چاہئے، میں اس پر معذرت کرتا ہوں۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کہا کہ یہ پہلے ایک بار باہر جائیں پھر واپس آئیں۔ تاہم اپوزیشن نے نو نو کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ جب کہ حکومتی ارکان آغا رفیع اللہ کو ایوان سے نکالنے کے لئے سرگرم ہوگئے،  شیرین مزاری نے سارجنٹ ایٹ آرمز سے استفسار کیا کہ آغا رفیع اللہ کو باہر کیوں نہیں نکالتے۔

دوسری جانب  وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے آغا رفیع اللہ کو ایک منٹ کے لئے لابی جانے کی تجویز دے دی، اور کہا کہ رول نمبر 19کے تحت اسپیکر کسی رکن کو ایوان کے ماحول خراب کرنے پر ایوان سے نکال سکتا ہے، کسی رکن کو معطل بھی کیا جا سکتا ہے ، رولنگ آچُکی ہے چیئر اور ایوان کی عزت کے لئے ایک منٹ کے لئے باہر جائیں۔ آغا رفیع اللہ کو ارکان ایوان سے باہر لے گئے۔ تاہم  اپوزیشن اراکین آغا رفیع اللہ کو واپس لے آئے۔