Official Web

کیٹو ڈائیٹ: جلد وزن کم کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے

چربیلی خوراک کھا کر وزن کم کرنا پہلی مرتبہ سن 1924 میں متعارف کیا گیا تھا۔ اس وقت کیٹوجینک فوڈ مرگی کے مریضوں کو پڑنے والے دورے کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ سن 1970 کی دہائی میں کیٹو ڈائیٹ سے وزن کم کرنے کو مقبولیت ملی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی کیٹو خوراک سے وزن کم کرنا مقبول ہے لیکن اس بارے میں خدشات بھی ابھرنا شروع ہو چکے ہیں۔ امریکا کے نیویارک سٹی میں رہنے والی ماہرِ خوراک و غذائیت سارا ہیمڈان کہتی ہیں کہ وہ کبھی بھی کیٹو جینک خوراک استعمال کرنے کو تجویز نہیں کرتی ہیں کیونکہ اس کے جسم میں دیرپا منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ کیٹو جینیک فوڈز سے صحت کو لاحق ہونے والے خطرات کو مفید خیال نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیٹو فوڈز سے جگر کے ساتھ ساتھ گردے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

سارہ کے مطابق وہ وزن کم کرنے کے لیے طویل دورانیے کے مؤثر اور محفوظ طریقوں کو انسانی صحت کے لیے بہتر خیال کرتی ہیں کیونکہ یہ فوری نہیں ہوتے مگر انہی میں تحفظ ہے۔ معالجین کا کہنا ہے کہ جلد وزن کم کرنے سے انسانی جسم کے بعض اعضاء  پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

کیٹو جینک خوراک سے مراد وہ خوراک ہے جس میں کاربوہائیڈریٹ، حیاتیاتی کیمیا کا وہ گروپ جس میں قوت بخش نامیاتی مرکبات کا بڑا گروپ، جس میں گلوکوز اور نشاستہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں، کم ہوں اور چربیلے مادے زیادہ ہوں۔ انسانی جسم شکر یا گلوکوز سے توانائی پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے کئی اتھلیٹس یا وزن کو کم کرنے کے خواہشمند خواتین و حضرات ورزش کے بعد خالی پیٹ یا بھوکا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں جسم اندرونی چربی کو استعمال کر کے توانائی حاصل کرتا ہے۔

ایسا مسلسل کرنے سے انسانی جسم میں موجود کیٹو کے استعمال کا عادی ہو جاتا ہے اور اس تبدیلی کو کیٹوسِس (Ketosis) کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی جسم کا انحصار اب انسانی جسم میں پائی جانے والی چربی پرمنتقل ہو گیا ہے یعنی جسم توانائی شکر سے نہیں بلکہ چربی سے حاصل کرتا ہے۔ کیٹوسِس کا عمل دو سے چار دنوں میں شروع ہو جاتا ہے۔

کیٹو جینک خوراک سے مراد یہ بھی ہے کہ بدن میں کاربوہائیڈریٹ رکھنے والی خوراک صرف پچاس گرام تک محدود کر دی جائے۔ پچاس گرام سے جسم کو صرف دس کیلوریز ملتی ہیں اور بقیہ نوے فیصد کیلوریز پروٹین اور فیٹ یا چربی سے حاصل کی جائے۔

دوسری جانب ماہرینِ غذائیت نوجوانوں کا سوا دو سو سے سوا تین سو گرام کاربوہائیڈریٹس کو جذب کرنے کو صحت مند خیال کرتے ہیں۔ اتنے کاربوہائیڈریٹس ایک کیلے اور ایک کپ ابلے چاولوں میں ہوتے ہیں۔ یہ انسانی جسم میں پینتالیس سے ساٹھ فیصد کیلوریز کے مساوی ہے۔ اس سے زیادہ کاربوہائیڈریٹس موٹاپے کا باعث بنتے ہیں اور جسم کی اندرونی بافتوں میں پہلے سے موجود کیٹونز کو جلانا بند کر دیتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کیٹوجینک فوڈ وزن کم کرنے میں مددگار ہوتی ہے اور اس سے خون میں موجود شکر کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ توانائی حاصل کرنے کے لیے شکر سے چربی کی جانب منتقلی سے فلو کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اسے کیٹو فلو کہتے ہیں۔ اس دوران سردرد، متلی اور تھکاوٹ بھی محسوس کی جاتی ہے۔ کیٹو فلو نقصان دہ نہیں اور دو تین ہفتوں میں جسم کی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔

بعض اوقات انسانی مسلز یا پٹھوں میں کھچاؤ اور سانس لینے میں دقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی علاوہ قبض ایک اور سائیڈ ایفیکٹ کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ بعض میڈیکل ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ کیٹو جینیک خوراک خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کا باعث بھی بنتی ہے۔

اس کے علاوہ جسم میں سوزش پیدا کرنے کے امکان کو بڑھا دیتا ہے۔ سارا ہیمڈان کے مطابق انفلیمیشن یا سوزش کے امکانات بڑھنے سے دل کا عارضہ بھی لاحق ہیو سکتا ہے۔ ان کے مطابق ایسی خوراک چھوڑنے کے بعد سائیڈ ایفیکٹس میں ذیابیطس کے ساتھ ساتھ موٹاپا بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت گردے کے عوارض کے علاج میں کیٹو جینیک خوراک کے فائدہ مند ہونے پر بھی تحقیق جاری ہے۔

(بشکریہ ڈاؤچے ویلے)