Official Web

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے انسداد وبا میں چین کی کامیابیوں کی پزیرائی

سات تاریخ کو ، عالمی ادارہ صحت کے متعدد عہدیداروں نے کووڈ۔۱۹ کے حوالے سے جینیوا میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران چین کو بھرپور مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ چین میں مسلسل بیس روز سے زائد عرصے میں کوئی ایک بھی مقامی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے وبا کے خلاف جنگ میں چین کی نمایاں کامیابیوں کو بھرپور سراہتے ہوئے کہا کہ انسداد وبا کے حوالے سے چین کے اقدامات اور تجربات دوسرے ممالک کے لئے بہت مددگار ہیں.

ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کی تکنیکی رہنما ماریا وان کرکوف نے رواں سال فروری میں ڈبلیو ایچ او کی بین الاقوامی ماہر ین کی ٹیم کے ہمراہ چین کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ چین کے پبلک ہیلتھ انفراسٹرکچر ، وبا کے نگران نظام ، اور انسداد وبا کے عملے سے بے حد متاثر ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے متعدد ممالک چین کی جانب سے وبا کے ابتدائی مرحلے میں اٹھائے گئے اقدامات پر عمل پیرا ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے سربراہ مائیکل ریان نے کہا کہ چینی رہائشی کمیونیٹیز ، سائنسی تحقیقی اداروں اور صحت عامہ کےسرکاری اداروں کے مشترکہ تعاون کی بدولت چین نے انسداد وبا میں کامیابی حاصل کی ہے۔لہذا ، ہم فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز اور پورے چینی عوام کو مخلصانہ مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

کووڈ-۱۹ کے خلاف جنگ میں چین کی جانب سے متعدد ممالک میں طبی ماہرین بھیجے گئے تاکہ اُن ممالک کو انسداد وبا میں معاونت فراہم کی جا سکے۔چین کے عملی اقدامات سے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور پر عمل پیرا رہتے ہوئے عالمی برادری کے شانہ بشانہ مشکلات پر قابو پانے کے لیے ایک بڑے ملک کے ذمہ دارانہ کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔اگست کے آخر تک ، چین نے متعلقہ ممالک کے تقاضوں کے مطابق 31 ممالک میں طبی ماہرین کی 33 ٹیمیں بھیجی ہیں۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدل مومن نے کہا کہ چینی حکومت نے بنگلہ دیشی عوام کی توقعات کے عین مطابق طبی ماہرین کی ٹیم بنگلہ دیش بھیجی ہے جس پر ہم شکرگزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وبا کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے بعد دونوں ممالک کے مابین دوستی مزیدمستحکم ہوگئی ہے۔طبی ماہرین کی ٹیمیں بھیجنے کے علاوہ ، چین نے متعدد ممالک کو انسداد وبا کا ساز وسامان اور قیمتی تجربات بھی فراہم کیے ہیں۔ بیرون ملک مقیم چینی شہریوں اور چینی کاروباری اداروں نے مقامی لوگوں کی امداد کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔