Official Web

چین نے لداخ کے بعد اروناچل پردیش پر بھی اپنا دعویٰ دہرا دیا

بیجنگ: چین کی طرف سے ایک اور دعویٰ سامنے آگیا جس کے باعث بھارت کو بڑا دھچکا لگ گیا، بیجنگ انتظامیہ کی طرف سے لداخ کے بعد ارونا چل پردیش پر بھی اپنا دعویٰ دہرا دیا۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاؤ کا کہنا تھا کہ چین نے کبھی ارونا چل پردیش کو تسلیم نہیں کیا۔ اروناچل پردیشن در اصل تبت کا جنوبی حصہ ہے۔

ہفتہ وار بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے چند روز قبل پانچ بھارتی شہریوں کی گمشدگی پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یاد رہے کہ چار سے پانچ ماہ کے دوران چین اور بھارت کے درمیان زبردست کشیدگی دیکھنے کو مل رہی ہے، ایک بار دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آئیں جس کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے حریف بھارتی فوج کے 20 اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔

 

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے بھی ایک کارروائی کے دوران تبت کے مقام چین کی فوج نے بھارت فوج کا کمانڈر کو ہلاک کر دیا تھا جس کی تصدیق بی جے پی کے مقامی سیاستدان نے بھی کی تھی۔

اس سے قبل چین نے بھارتی وفد سے ملاقات سے کے بعد ایک سخت بیان میں کہا کہ لداخ میں سرحدی کشیدگی کے لیے پوری طرح سے بھارت ذمہ دار ہے اور اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑیں گے، اگر جنگ شروع ہوئی تو بھارت کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ہماری فوج بھارتی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد ثالثی کی پیشکش ہے۔

ایل اے سی پر کشیدگی کو دور کرنے کے مقصد سے ماسکو میں بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور ان کے چینی ہم منصب وی فینگے کے درمیان تقریبا ڈھائی گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔

دونوں رہنما شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے دورے پر تھے۔ اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہی چین کی حکومت کی طرف جاری بیان میں ایل اے سی پر بھارتی حرکتوں پر شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔

بیجنگ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گياکہ چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر موجودہ کشیدگی کی وجوہات اور اس کی حقیقت پوری طرح سے واضح ہے، اس کے لیے بھارت پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔ چین اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں کھو سکتا اور اس کی مسلح افواج قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے تئیں پوری طرح پرعزم، پر اعتماد اور قابل ہیں۔

بیان میں چین نے کہا کہ بھارت صدر شی جن پنگ اور نریندرا مودی کے درمیان طے پانے والے معاہدوں پر دلجمعی سے عمل کرے اور تصفیہ طلب مسائل مذکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں۔

چینی بیان میں کہا گیا کہ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید اچھا کرنے، علاقائی امن و استحکام کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے اور سرحدی علاقوں میں امن و امان کی حفاظت کرنے جیسے معاملات پر فریقین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر جنگ شروع ہوئی تو بھارت کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیونکہ چین کی فوج بھارتی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت اورچین کے درمیان تنازع ختم کرانے کے لیے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ بھارت چین صورتحال انتہائی خراب تھی، ہم سےکچھ ممکن ہوتو مدد کرنےکو تیار ہیں۔

دوسری جانب بھارتی وزارت دفاع کی جانب جاری ایک بیان میں سرحد پر کشیدگی کے لیے چینی کارروائیوں کو ذمہ دار بتایا گيا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا رواں برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے کئی ادوار ہوچکی ہیں، تاہم کسی پیش رفت کے بجائے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

تازہ کشیدگی وجہ پیونگانگ جھییل کے جنوبی علاقے میں 30 اگست کی درمیانی شب بھارتی فوج کی کارروائی بتائی جاتی ہے جس میں بھارتی فوجوں نے جھیل سے متصل اونچی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

بھارت نے چین پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی فوج نے اس علاقے میں صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جس کا بھارتی فوج کو پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور بھارتی فوج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

لیکن چین نے اسے بھارتی فوجیوں کی دراندازی بتاتے ہوئے بھارت سے سخت احتجاج کیا تھا اور ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

چینی سفارت خانے کی ترجمان جی رونگ کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان 31 اگست کو جن امور پر اتفاق ہوا تھا، بھارتی فوجیوں نے، اس کی صریحاًخلاف ورزی کی ہے۔

جی رونگ نے بھارتی افواج کے بارے میں کہا کہ انہوں نے پینگانگ سو جھیل کے جنوبی علاقے اور مغربی علاقے میں لائن آف کنٹرول کو پار کیا اور ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں کیں، جس سے سرحدی علاقے میں دوبارہ حالات کشیدہ ہوگئے۔

لداخ میں اس وقت بھارت اور چین کے کئی ہزار فوجی لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے دونوں جانب تعینات ہیں اور ان تازہ واقعات کے بعد سے خطے میں فوجی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔