Official Web

ترک صدر اردوان کا ایک ہزار سال پرانے گرجا گھر کو دوبارہ مسجد بنانے کا اعلان

انقرہ:  ترکی کے صدر طیب اردوان نے آیا صوفیہ کے بعد تاریخی حیثیت کے حامل کاریہ گرجا گھر میوزیم کو دوبارہ سے مسجد بنانے کا اعلان کیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردوان نے استنبول میں واقع تاریخی حیثیت کی حامل عمارت کاریہ گرجا گھر میوزیم کو دوبارہ سے پرانی حیثیت یعنی مسجد کی صورت میں بحال کرنے کا حکم دیدیا ہے۔

ہزار سالہ تاریخی عمارت کاریہ گرجا گھر استنبول میں گولڈن ہارن کے مغربی کنارے پر واقع ہے، آیا صوفیہ کی عمارت کی بطور مسجد بحالی کے صرف ایک ماہ بعد کاریہ گرجا گھر میوزیم کی بھی مسجد کی بحالی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان دونوں تاریخی عمارت کی بطور مسجد بحالی کا حکم عدالت نے گزشتہ برس نومبر میں دیا تھا۔

کاریہ چرچ کو 16 ویں صدی میں خرید کر مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا لیکن 1948 میں تاریخی حیثیت کی حامل اس عمارت کو میوزیم بنادیا گیا تھا تاہم اب دوبارہ اس میوزیم کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

 

واضح رہے کہ صدر طیب اردگان نے اپنی انتخابی مہم میں ملک کی دو اہم تاریخی عمارتوں کی بطور مسجد بحالی کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ ماہ آیا صوفیہ اور اب کاریہ گرجا گھر کی مسجد میں تبدیلی سے اپنا وعدہ وفا کردیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا تھا کہ 86 سال بعد آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے، جسے ہم آزاد کروائیں گے۔

اسرائیلی خبر رساں ادارے کے مطابق اس بیان کو ترکی کے وزارت مذہبی امور بھی بار بار پھیلا رہے ہیں اور پیغام دیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کیخلاف تمام عالم اسلام کے ممالک کو متحد ہونا ہو گا۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی میں اسرائیل مخالف جذبات تیزی سے ابھر رہے ہیں، یہ جذبات دردِ سر بن سکتے ہیں۔ ترکی کی یہ بیان بازی ایران کی بیان بازی سے ملتی جلتی ہے، ایران میں مذہبی قیادت برسر اقتدار ہے، اسی طرح ترکی میں اے کے پارٹی اخوان المسلمین سے متاثر ہے جسکی ترجیح ’سب سے پہلے مسلم امہ‘ ہے، ان کا نظریہ باقی سب چیزیں بعد میں آتی ہیں۔

 

اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران علی الاعلان اسرائیل کے خلاف دھمکیاں لگاتا رہتا ہے، تاہم چند سال قبل ترکی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات موجود تھے، اس تعلقات میں اس وقت دراڑ آئی جب 2009ء غزہ میں لڑائی ہوئی تھی، اس کے بعد دونوں ممالک میں پہلی پہلے تعلقات نہیں رہے۔ ترکی اسلامی دنیا میں بڑا مقام حاصل کرنے کے لیے مکمل کوششیں کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے کے مطابق ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ ترکی کے حماس کے ساتھ تعلقات قریبی ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ایران بھی حماس کی حمایت کرتا ہے، انقرہ اور تہران کی خارجہ پالیسی میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانا پہلی ترجیح ہے۔