Official Web

پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے اور اس ضمن میں عدالت عظمیٰ نے اپنا آرڈر جاری کر دیا ہے۔ 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دو صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ متعد دفیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کااختیار ہے، کیس کی سماعت کے دوران ہم نے آئین کے آرٹیکل 243 اور آرمی رولز کاجائزہ لیا لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کے اندر آرمی جنرل کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں جب کہ آرٹیکل 243 کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔

فیصلے کے مطابق قانون میں جنرل کی ریٹائرمنٹ اورعہدے کی معیاد کا ذکر نہیں جب کہ جنرل کے عہدے میں توسیع کی تسلسل سے روایات بھی نہیں ہیں، اداراتی روایات کے مطابق جنرل 3 سال کی میعاد پوری ہونے پر ریٹائرہو جاتا ہے، اداراتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہو سکتیں ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اب معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے، منتخب نمائندےآرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کریں، کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا، یہ معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، ارکان پارلیمنٹ نیا قانون بنائیں جس سے ہمیشہ کیلئے آرمی چیف کی پیش گوئی ممکن ہو سکے اور یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی، اداروں کی مضبوطی میں ہی قوم کا مفاد ہے۔

فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا کہ آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو قانونی شکل دی جائے گی اور وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی تقرری کی قانون سازی کے لئے 6 ماہ مانگے ہیں، وفاقی حکومت آرمی چیف کی سروس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کرے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے، جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف نئی تقرری 6 ماہ کے لئے ہوگی اور ان کی موجودہ تقرری بھی مجوزہ قانون سازی سے مشروط ہوگی، جب کہ نئی قانون سازی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت کا تعین کرے گی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں 1616میں چیف جسٹس آف انگلینڈ کے فیصلے کا ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے، قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلیٰ مضبوط ہوگا۔

چیف جسٹس نے اضافے نوٹ میں کہا ہے کہ آپ جس قدر بھی طاقت ور کیوں نہ ہوں قانون آپ سے بالاتر ہے، آرمی چیف کے آئینی عہدے کی مدت کوغیر ریگولیٹڈ نہیں چھوڑا جا سکتا۔