Official Web

سائنسدانوں نے بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی

برسلز: آج سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کیونکہ فلکیاتی تاریخ میں سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ بلیک ہول اور اس کے سائے کی تصویر پیش کردی ہے۔

برسلز میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں ماہرینِ فلکیات، انجینیئروں اور نظری فلکیات دانوں نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ایک فوق جسیم (سپرماسِو) بلیک ہول کے پہلی تصویر حاصل کرلی ہے جس کا ڈیٹا کرہ ارض پر موجود مختلف مقامات پر واقع 8 ایسی دوربینوں سے حاصل کیا گیا ہے جنہیں ’ایونٹ ہورائزن ٹیلیسکوپ‘ (ای ایچ ٹی) نیٹ ورک کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دوربینیں بلیک ہول اور بالخصوص ایونٹ ہورائزن کی تصویر کشی کے لئے ڈیزائن کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ چلّی کے لق و دق ریگستان، اتاکاما میں واقع ،اتاکاما لارج ملی میٹر ایرے (ایلما) نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

ماہرین نے کے مطابق یہ بلیک ہول ایک بہت ضخیم کہکشاں میسیئر 87 کے عین مرکز میں موجود ہے۔ اس بلیک ہول کی کمیت (ماس) ہمارے سورج سے ساڑھے چھ ارب گنا بڑی ہے جو ہماری زمین سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ نوری سال (لائٹ ایئر) کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس دریافت کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ممتاز سائنسی جریدے ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز نے ایک خصوصی ضمیمے میں 6 تحقیقی مقالے شائع کئے ہیں جس میں بلیک ہول کی تصاویر اور دیگر تفصیلات موجود ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مقالے اوپن سورس کے تحت مفت میں دستیاب ہیں۔

کچھ بلیک ہول کے متعلق

واضح رہے کہ امریکہ میں بھی ہارورڈ یونیورسٹی اور نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ایسی ہی ایک اور پریس کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی۔

ماہرین نے بلیک ہول کی تصویر کے بارے میں بتایا ہے کہ اسے بغور دیکھا جائے تو یہ کسی گول کڑے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کا نچلا حصہ قدرے روشن اور موٹا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یاتو کو یا روشن مادہ بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن کے نزدیک گھوم رہا، یا اندر خود بلیک ہول محوگردش ہے یا پھر یہ دونوں چیزیں ہی گھڑی وار سمت میں گھوم رہی ہیں۔

امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ای ٹی ایچ کے سربراہ ڈاکٹر شیپ ڈولیمن نے کہا کہ بلیک ہول نے پوری دنیا کو سحرزدہ کررکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مادہ، گیس، پلازمہ اور دیگر اشیا بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن میں گرتے وقت انتہائی گرم ہوکر بھڑک اٹھتی ہے۔ ماہرین نے اسے آتشیں دائرہ قرار دیا ہے۔ جب کہ تصویر کے اندر سیاہ دائرہ بذاتِ خود ایونٹ ہورائزن کو ظاہر کررہا ہے۔

ڈاکٹر شیپ نے بتایا کہ بلیک ہول کائناتی ساخت میں غیرمعمولی اہمیت رکھتےہیں اور ان کے مطابق اس دریافت سے آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت پر نئے سرے سے تحقیق میں بھی مدد ملے گی۔

ای ایچ ٹی منصوبہ

دنیا بھر میں پھیلی ہوئی حساس ٹیلی اسکوپس اپنے دیوقامت پیرابولک اینٹینا کی بنا پر مجموعی طور پر پوری زمین کو ہی ایک مجازی دوربین کی شکل دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس پر ایک عشرے سے کام کررہے ہیں اور اس کا ڈیٹا جوڑ جوڑ کر بلیک ہولز اور دیگر اجسام کو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

سائنسدانوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں موجود دوربینوں کے ڈیٹا کا کسی تعصب کے یا پہلے سے قیاس کئے بغیر جائزہ لیا گیا اور جلد ہی پورا ڈیٹا عالمی سائنسی برادری کے لیے پوسٹ کردیا جائےگا۔ اس تصویر کو کئی مقامات سے مسلسل چھ روز تک دیکھا گیا اور یہ ہوبہو اپنی جسامت پر برقرار رہا۔

اب سے دوسال قبل اپریل کے مہینے میں ہی تمام دوربینوں نے پانچ کروڑ پچاس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ایک بلیک ہول کو دیکھا جسکی تصویر جاری کی گئی ہے اور جاری کردہ تصویر نظری طبیعیات کی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابقت میں ہے۔

اگر اس تحقیق کے مقالہ نگاروں کو دیکھا جائے تو آپ کو 200 کے قریب مصنفین نظر آئیں گے یعنی برسوں کی اس تحقیق میں لگ بھگ 200 سائنسدانوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔

%d bloggers like this: