Official Web

بڑھاپے میں بھی دماغ میں نئے خلیات بنتے رہتے ہیں

اسپین: سائنسدانوں نے 43 سے 87 سال تک کی عمر کے لوگوں کے دماغ کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ ہرعمر بلکہ بڑھاپے تک بھی نئے دماغی خلیات ’نیورونز‘ کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ اس سے یہ مفروضہ بھی مضبوط ہوا ہے کہ بالغ افراد دماغی چوٹ یا حادثے کے بعد دوبارہ ٹھیک ہوسکتے ہیں اور ان کی بحالی کی شرح بلند ہوسکتی ہے۔

اگرچہ پوری زندگی نئے خلیات اور بافتیں تشکیل پاتی رہتی ہیں لیکن دماغی ماہرین کا خیال تھا کہ عمررسیدگی میں نئے عصبی خلیات یا نیورونز بننا بند ہوجاتے ہیں۔ تاہم اسپین میں سیویرو اوکوا مالیکیولر بائیالوجی سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر ماریہ لورینز مارٹن نے 13 ایسے افراد کے دماغوں کا مطالعہ کیا جو اس دنیا سے گزرچکے تھے۔ ان افرد کی عمریں 43 سے 87 برس تک تھیں۔ ماہرین نے احتیاط سے ان دماغوں کو دیکھا اور ان میں نئے خلیات کے بننے کا جائزہ لیا۔

مطالعے میں دماغ کے ایک اہم حصے ’’ہپوکیمپس‘‘ کا جائزہ بھی لیا گیا جہاں نئے خلیات جنم لیتے ہیں۔ ماہرین نے نیورون بنانے والے پروٹین کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ

پروٹین بھی بن رہے ہیں اور دماغ میں ہزاروں نئے خلیات بننے کا عمل بھی دیکھا گیا ہے۔ یہ نیورون کئی اشکال اور جسامت کے تھے اور بعض بڑھوتری کے درجے سے گزررہے تھے۔

ماہرین نئے دماغی خلیات کی تشکیل کو ’’نیوروجنیسس‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ کے مطابق ان کی ٹیم نے بوڑھے افراد کے دماغوں میں بھی نئے خلیات بنتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اس سے قبل یہ دریافت کیا جاچکا ہے کہ 90 سالہ افراد بھی نئی یادداشتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ نئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان میں نئے ِخلیات بنتے رہتے ہیں۔

تاہم یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والے دماغ کے ایک اور ماہر، آرتورو ایلواریز بائلیا اس تحقیق کے نتائج سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مردہ افراد کے دماغوں میں خلیات پہلے سے موجود ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آخر وقت تک بن رہے تھے۔ انسانی دماغ میں نئے خلیات کی تشکیل کو ناپنے والا اب تک کوئی طریقہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس لیے مزید تحقیق تک اس مفروضے کو ماننا مشکلہوگا۔