Official Web

تپ دق میں اضافے کی بڑی وجہ غربت اور شعور وآگہی کا فقدان

کوئٹہ/ مظفر آباد:  ٹی بی یا تپ دق کی بیماری مریض کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں غربت اور مرض سے لاعلمی اس مرض کے مریضوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ ادھر آزاد کشمیر میں ٹی بی کا واحد ہسپتال حکومتی عدم توجہی کا شکار ہو کر بھوت بنگلے میں تبدیل ہونے لگا ہے۔

بلوچستان میں صحت عامہ کی صورتحال قطعی تسلی بخش نہیں جس کا اندازہ صوبے میں مختلف امراض اور ان میں مبتلا مریضوں کی تعداد کی بڑھتی ہوئی شرح سے لگایا جا سکتا ہے۔

ٹی بی بھی انھیں بیماریوں میں سے ایک ہے۔ ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2017ء کے مردم شماری کے حساب سے دیکھا جائے تو بلوچستان میں سالانہ 33 ہزار کے لگ بھگ ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہرین طب کے مطابق ٹی بی کے مرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت اور شعور وآگہی کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں کے سوائے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اس مرض کی صورتحال کافی گھمبیر ہے۔

مسلسل کھانسی، وزن کا گھٹنا اور سینے میں تکلیف بلغم اور تھوک میں خون آنا سمیت کئی نشانیاں مریض میں واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ٹی بی یعنی تپ دق کے مرض میں مبتلا مریض انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارتا ہے۔

صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی حکومتی سطح پر بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے تا کہ ٹی بی سے پاک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔

آزاد کشمیر میں ٹی بی کا واحد ہسپتال حکومتی عدم توجہی کا شکار ہو کر بھوت بنگلے میں تبدیل ہونے لگا ہے جبکہ بیرونی امداد سے تعمیر کی جانے والی ہسپتال کی عمارت 6 سال بعد بھی استعمال میں نہ لائے جانے کی وجہ سے ناکارہ ہونے لگی ہے۔

آزاد کشمیر میں ٹی بی ہسپتال کا قیام 1962ء میں سطح سمندر سے 5 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع خوبصورت اور صحت افزا مقام ہل چمن کوٹ میں لایا گیا۔ ایک وقت تھا جب یہ ہسپتال پاکستان میں ٹی بی کے کامیاب علاج کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا لیکن یہ شفاخانہ اب حکومتی عدم توجہی کا شکار ہو کر بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث عوام کے لیے بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔

2005ء کے زلزلے کے بعد تعمیر نو پروگرام کے تحت بیرونی امداد سے ملنے والی خطیر رقم خرچ کر کے 2013ء میں تعمیر کی جانے والی ہسپتال کی عمارت کو 6 سال گزر جانے کے بعد بھی حکومت اسے فنگشنل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔

عملے کی تنخواوں کی مد میں سالانہ 4 کروڑ سے زائد کی رقم خرچ کرنے والا امراض سینہ کا یہ ہسپتال ٹی بی کی تشخیص کے لیے بنیادی ٹیسٹ اور چسٹ سپیلسٹ کی سہولت تک بھی محروم ہے۔ مریضوں کو ضروری ٹیسٹ کے لیے رولپنڈی اسلام آباد کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

%d bloggers like this: