Official Web

چین سے میرے نسل در نسل تعلقات

تحریر:طاہر فاروق

چین نے آزادی کے 75 سالوں میں جو زبردست ترقی کی وہ ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک روشن مثال ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے جس طرح اپنے ملک کی آزادی کے بعد تعمیر نو کی وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی عالمی طاقت ہے۔ معیشت سیاست اقتصادیات ہر میدان میں چین نے ترقی کرکے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اگر قیادت مخلص ہو ان کا ظاہر وباطن ایک ہو تو کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ملک وقوم ترقی نہ کر سکیں۔ چین کی ترقی پاکستان کے لئے ایک درخشاں مثال ہے۔ چین نے پاکستان سے دو سال بعد آزادی حاصل کی اس عرصے میں چین اور پاکستان دونوں نے ہر موقع پر اور ہر فورم پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔پاکستان اور چین کی دوستی دنیا کے لیے مثال ہےچین بہت موثر اور مثبت انداز میںاقوام کے ساتھ اپن
تعلق مضبوط بناتا ہے۔ چین کے اسی انداز کو ہم سراہتے ہیں۔ چین کے سب سے بڑے ”چائنہ میڈیا گروپ CMG” نے دنیا بھر کے اہم میڈیا ہائوسز کے ساتھ مل کر ”میری چین کی کہانی” کے عنوان سے دنیا بھر سے ایسے خاندانوں افراد اور دوستوں کی یادداشتیں اور مضامین اکٹھے کئے جن کا چین کے ساتھ نسل در نسل تعلق چلا آرہا ہے۔ میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ میرے جذبات اور احساسات بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ میری چین کی کہانی کا عنوان ہے ”چین سے میرے نسل در نسل تعلقات” یہ مضمون تین نسلوں پر محیط تعلقات کی ہلکی سی جھلک ہے۔

چین کے بارے میں لکھنا بہت آسان بھی ہے اور مشکل بھی آسان ایسے کہ ہر پاکستانی کی طرح چین کو میں بھی جانتا ہوں اور مشکل اس لئے کہ چین کے ساتھ محبت کا تعلق اتنا طویل ہے کہ کہاں سے اس کی محبت بھرے تعلق کے سفر کا آغاز کیا جائے۔
یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ چین کے ساتھ میرا تعلق نسل درنسل ہے۔ میرے والد مرحوم جناب شریف فاروق کو چین جانے کا دو بار موقع ملے ایک بار سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دوسری بار صدر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ انہوں نے 1980ء میں چین سے واپسی پر کتاب بعنوان ”دیار دوست کی طرف” لکھی ۔ کتاب کو اُس وقت بھی زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس وقت کے صدر جنرل ضیاء کو یہ کتاب خصوصی طور پر پیش کی گئی۔ کتاب کی تقریب رونمائی پشاور میں منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے پاکستان میں چین کے سفیر وفاقی وصوبائی وزراء اور دیگر زعماء نے شرکت کی۔


یہ وہ دور تھا جب چین جدوجہد اور تعمیر نو کے دور میں داخل ہو رہا تھا۔ چینی قوم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ دنیا کے نقشے پر ایک ترقیافتہ قوم کے طور پر اپنا لوہا منوائے گی۔ چین کے انقلابی لیڈر چیئرمین ڈینگ ژیاوپھنگ نے ملک کے مستقبل کے لئے اپنا ریفارمز کا ایجنڈا متعارف کرا دیا تھا جسے عوام میں پذیرائی حاصل ہو رہی تھی اور ہر چینی اپنے اپنے کام میںجُت گیا۔ طالب علم مزدور رہنماء بلکہ پوری قوم اپنے اپنے شعبے میں سرگرمی سے متحرک ہو گئی۔ دنیا کیا کہتی ہے انہوں نے اس کی قطعاً پرواہ نہیں کی۔ چینی قیادت اور چینی عوام شانہ بشانہ رہے۔

چالیس بیالیس سال کے عرصے میں چین نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ دفاع تعلیم معیشت سیاست خامور امور ہر شعبے میں چین نے زبردست ترقی کی ایسی ترقی جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ چین کی اس تیزتر ترقی سے دنیا کے اہم ممالک خائف بھی ہیں اور اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں لیکن چین ایک حقیقت ہے اورحقیقت کو زیادہ عرصہ چھپایا نہیں جا سکتا۔ چین کی ترقی کا سفر بہت دلچسپ اور ترقیافتہ قوموں کے لئے مشعل راہ ہے۔


ہاں تو بات ہو رہی تھی چین کے ساتھ میرے تعلق کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چین ہمارے گھر میں گفتگو کا موضوع ہمیشہ سے رہا۔ 1976ء میں وہ بطور صحافی جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ چین گئے تو ایئرپورٹ پر اُس وقت کے چینی وزیراعظم ژواین لائی نے ان کا اور نصرت بھٹو مرحومہ کا استقبال کیا۔ اس وقت ان کی ملاقاتیں وزیراعظم ژواین لائی کے علاوہ سیاسی شخصیات سے ہوئیں۔ بھٹو جو سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے انہوں نے اور ان کی کابینہ کے ارکان نے چینی طرز کا کوٹ اور پتلون پہنی ہوئی تھی جس کا میزبانوں پر تاثر گیا کہ پاکستان بالخصوص وزیراعظم بھٹو جو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے چین کے نظریات سے اتفاق رکھتے ہیں اور چین کے قریب تر ہیں۔ وزیراعظم بھٹو خود کو ”چیئرمین بھٹو” کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اس لئے چین میں مختلف تقریبات کے دوران ”چیئرمین بھٹو” کہہ کر پکارا گیا۔


والد صاحب کا دوسرا دورہ 2 جون 1980ء سے 6 جون تک یعنی پانچ روز کا تھا اتنے قلیل دورہ کے بعد کسی بھی ملک بالخصوص چین جیسے ملک کے بارے کتاب لکھنا حیرت کا باعث تھا۔ کیونکہ کتاب لکھنے کے لئے مصنفین کئی کئی دنوں کا سفر کرتے ہیں لیکن یہ چین کے ساتھ ان کی محبت وعقیدت تھی دوسری غالباً وہ اپنی قوم اور قارئین کو چین کی ترقی سے متاثر کرنا چاہتے تھے۔


1980ء میں ہونے والے دورے کے دوران ان کے وفد جس کی قیادت صدر جنرل ضیاء الحق کر رہے تھے کی کمیونسٹ پارٹی کے ریفارمر چیئرمین ڈینگ ژیائو پنگ سے گریٹ ہال میں ہوئی۔ وفد کے رکن کے طور پر وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وفد کا شاندار خیرمقدم کیا گیا ۔ اس وقت ہواکیفانگ چین کے صدر تھے۔ چینی صدر اور قیادت نے پاکستانی وفد کا شاندار استقبال کیا۔ دورہ کے دوران ایک شام چین کے سابق اور مرحوم وزیراعظم ژو این لائی خصوصی طور پر وفدسے ملنے کے لئے تشریف لائیں۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔وہ پاکستان کی ہمدرد دوست تھیں انہوں نے پاکستان میں آبادی کے کنٹرول کرنے کے لئے چینی تجربات کے بارے میں بھی بتایا۔ صدر ضیاء نے بیگم ژواین لائی کو پاکستان آنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ بہت کمزور ہو چکی ہیں ورنہ وہ ضرور پاکستان آتیں۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے پاکستانی چاولوں اور پاکستانی آم کا ذکر کیا۔

انہوں نے وفد کے اراکین سے ملاقات بھی کی۔
جب ہم بھائی بہن چھوٹے تھے تو والد صاحب اکثر چین کے حوالے سے کتب کہیں نہ کہیں ڈھونڈ کر لے آتے تھے (ڈھونڈکر اس لئے کہا کیونکہ اس دور میں چین پر بہت کم کتب میسر تھیں)۔ وہ ہمیں ہر روز رات کو سونے سے پہلے اس میں چند صفحات پڑھنے کی تاکید کرتے۔ 1980ء میں غالباً میں چھٹی یا پانچویں جماعت کا طالب علم ہوں گا ۔جیسا کہ چھوٹی عمر کے بچوں میں ہوتا ہے۔

ہمیں بھی معیشت سیاست خارجہ امور کی بجائے کھیل کود سیاحت اور اس طرح کی دیگرسرگرمیوں سے دلچسپی رکھتے۔ ہمارا رجحان دیکھ کر والد صاحب چینی لوک کہانیوں کی کتب لے کر آتے تھے جو یقینا ہمارے لئے دلچسپی کا باعث ہوتی تھیں۔ ان کا مقصد تھا کہ ہمارا رجحان ایک تو کتب بینی کی طرف ہو اور دوسرا ہم چین کی ترقی سے کچھ متاثر ہو سکیں۔ وہ اکثر ہمیں کہا کرتے تھے کہ چینیوں کی طرح محنت کیا کرو چینیوں کی طرح تعلیم کی طرف توجہ دو ان کے بار بار ہدایت سے کبھی کبھی چین اور چینی بچوں سے حسد بھی ہونے لگتی اور ہم انہیں اپنا حریف سمجھنے لگتے اور سوچتے کہ آخر چینی بچے کیوں اتنا پڑھتے ہیں اور ہمیں بار بار کیوں ان کی مثال دی جاتی ہے۔


بہرحال وقت گزرتا گیا چین نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں بلکہ ستاروں پر کمندیں ڈالنا شروع کر دیں۔ بڑے بڑے ڈیم بنائے چین میں تھری گور جیس ڈیم بنا تو دنیا ششدر رہ گئی ہمارے گھر میں چین کا ذکر چونکہ معمول تھا تویہ موضوع پھر گھر میں زیربحث آیا اور پھر سے چین کی تعریفیں اور ترقی کی مثالیں دیتے والد صاحب نہ تھکتے۔ اس زمانے میں زندگی اس قدر تیز نہیں تھی جس قدر آج ہے۔ اُس زمانے میں نہ موبائل تھے اور نہ ہی اس قسم کی دیگر اشیائ۔ خاندانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع ملتا تھا۔

والد صاحب مرحوم ہم سب بہن بھائیوں کو رات کے کھانے کے بعد یا تو خود کہانی سناتے یا سب کی باری لگی ہوئی تھی آج فلاں بنائے گا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا تھا۔
اسی طرح جب چین سے واپسی پر انہوں نے اپنی کتاب لکھنا شروع کی تو یہ ہم سب کی ڈیوٹی لگ گئی کہ اس کی پروف ریڈنگ کی جائے یہ کتاب بہت دلچسپ ہے آج بھی تروتازہ شگفتہ اسلوب تحریر قاری ایسے محسوس کرتا ہے کہ وہ بھی چین میں ہی ہے۔ہم بھی پروف ریڈنگ یا پڑھتے ہوئے ایسے محسوس کرتے کہ ہم چین پہنچ چکے ہیں بالخصوص جب وہ اپنی کتاب میں مختلف شہروں بازاروں اور کھیلوں اور کھانوں کا ذکر کرتے۔ بچپن میں ایسی ہی باتیں کشش کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کا ذکر ہونا شروع ہو گیا۔


والد صاحب مرحوم تھری گور جیس ڈیم کا ایسے ذکر کرتے جیسے پاکستان میں ڈیم نہ بنانے کی غلطی ہم بھائی بہنوں نے کی ہے اور ترقی کی دوڑ میں چین سے بہت پیچھے رہ جانے میں شاید ہمارا ہی کوئی ہاتھ ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1991ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت میں وفاق اور صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تو ہمارے میڈیا گروپ کے تحت پشاور میں سیمینار منعقد کیا گیا جس میں اس وقت کے وزیر خزانہ نواز شریف کے دست راست سینیٹر سرتاج عزیز نے شرکت کی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء خان عبد الولی خان والد صاحب کے قریبی دوستوں میں سے تھے نے بھی شرکت کی اور تقریر کی۔ تمام مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ چین کی طرح آبی ذخائر بنانے چاہئیں ترقی کی راہ پر چلنا چاہئے۔ 1993ء میں تھری گور جیس ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی جو 2003ء یعنی دس سال میں یہ عظیم الشان منصوبہ مکمل ہوگیا۔


میرے لئے یہ بات باعث حیرت تھی کہ 1980ء میں جب سی پیک کا وجود ہی نہیں تھا تو اس وقت والد صاحب مرحوم نے اپنی کتاب میں بعض مقامات پر لکھا کہ چین مستقبل میں پاکستان کے ساتھ بہت سے معاشی منصوبے شروع کر سکتا ہے اس کی وجہ انہوں نے یہ تحریر کی کہ شاہراہ ریشم کے ذریعے پاکستان اور چین میں اقتصادی معاشی ترقی کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر میں چینی اور پاکستانی ورکرز نے عظیم قربانیاں دیں۔شاہراہ ریشم رہتی دنیا تک دونوں ممالک کی دوستی کی عظیم مثال ہے۔
میرے والد مرحوم جو ہمارے ادارے کے بانی چیئرمین اور ایڈیٹر انچیف تھے چین کے نظام اور ترقی سے بے حد متاثر تھے۔ جب 1975ء میں ”ڈیلی اتحاد میڈیا گروپ” کی بنیاد رکھی گئی اور اخبار کی ادارتی پالیسی طے کرنے کا موقع آیا تو اس وقت انہوں نے اپنے ایڈیٹوریل بورڈ کے ساتھ طویل مشورے کئے اور طے پایا کہ "FOLLOW & SUPPORT CHINA POLICY” اپنائی جائے۔ یہ پالیسی آج تک چل رہی ہے۔ ان کی وفات کے بعد بلکہ ان کی زندگی میں ہی جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے بطور چیئرمین اور ایڈیٹر انچیف اس گروپ کا چارج سنبھالا تو اسی پالیسی پر عمل کیا بلکہ اس پالیسی میں اضافہ کیا۔ روزنامہ ”اتحاد” کا ایبٹ آباد سٹیشن اس لئے چنا گیا کہ وہ شاہراہ قراقرم پر واقع ہے یہ وہ تاریخی روٹ ہے جو چین کے ساتھ پاکستان کو منسلک کرتا ہے ۔ ایبٹ آباد اس راستے پر واقع سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہے۔ چین اور پاکستان کو اس روٹ کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے بلکہ قراقرم ہائی کے / شاہراہ ریشم کو فروغ دینے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔


بطور چیئرمینDAILY ITTEHAD MEDIA GROUP سی پیک کے آغاز سے ہی میں نے ہر فورم پر اور ہر سطح پر اس منصوبے کو ترقی کا منصوبہ قرار دیا۔
چین کے سابق سفیر و نائب وزیر خارجہ سن وی ڈونگ جب پاکستان میں سفیر تھے تو ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔
بعدازاں چین کے دیگر تمام سفراء جن میں یائو جنگ نونگ رونگ (موجودہ نائب وزیر خارجہ) اور دیگر سفارت کار شامل ہیں ان سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ مشاورت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
سی پیک کو آغاز سے ہی چیلنجز کا سامنا تھا وہ سی پیک کا ابتدائی دور تھا اس وقت امریکہ ا س منصوبے اور چین کی ترقی سے خائف تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ چین اور پاکستان قریب آسکیں اس لئے سوشل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں مسٹر ژاولی جیان ڈپٹی چیف آف مشن تھے اور سی پیک کے فوکل پرسن بھی تھے۔ ابتدائی دنوں میں ان سے مسلسل رابطہ رہتا تھا ۔ وہ پاکستان کے قریبی دوست تھے اور ہیں۔ اس دور میں ”ڈیلی اتحاد میڈیا گروپ” نے بھرپور انداز میں سی پیک کی کوریج شروع کی ۔
ہزاروں کی تعداد میں خبریں شائع کی گئیں مضامین اور اداریے لکھے سیمینارز منعقد کئے گذشتہ سال جب سی پیک کے دس سال پورے ہوئے تو پشاور میں ”سی پیک کے دس سال اور خیبر پختونخوا پر اس کے مثبت اثرات” کے عنوان سے سیمینار منعقد کرایا۔

جس میں گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی ان کے ہمراہ صوبائی وزراء بیورو کریٹس تھے جبکہ 200 سے زائد مہمانوں نے شرکت کی جس میں سول سوسائٹی کے ہر طبقے کی نمائندگی تھی۔
2018ء اور 2019ء میں مجھے چین جانے کا اتفاق ہوا چین کی محیر العقول ترقی میرے اور وفد میں شامل دیگر ایڈیٹرز کے لئے حیرت کا باعث تھی۔ مختلف اداروں میں چینی قوم کو کام کرتے دیکھا ہم سب دوستوں کی متفقہ رائے تھی کہ چینی قوم کی ترقی کا راز زبردست محنت ڈسپلن سیاسی قیادت پر اعتماد میں پوشیدہ ہے۔یہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی سیاسی تربیت کا نتیجہ ہے۔ سی پی سی جدید چین کی معمار ہے۔ اس جماعت نے چین کو بہترین سیاسی رہنماء صدور اور دیگر قیادت دی۔
موجودہ صدر شنی جن پھنگ نے تو چین کو بدل کر ہی رکھ دیا۔چین کے ہر شعبے کی تعمیر نو کی بلکہ ترقی کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ صدر شی جن پھنگ کوئی عام سیاستدان نہیں وہ عالمی مدبر ہیں۔
انہوں نے دنیا سے ترقی خوشحالی پرامن بقائے باہمی مشترکہ مستقبل اور مشترکہ ترقی کی بات کی۔ بی آر آئی جیسا عالمی خوشحالی اور ترقی کا منصوبہ متعارف کرانا جس کا مقصد پوری دنیا بالخصوص غریب ممالک کو اس منصوبے سے منسلک کرنا ہے چین کا مقصد غربت کا خاتمہ اور ترقی اور خوشحالی کی راہ اپنانا ہے۔
چین کے ساتھ تعلقات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتے جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ میرے چین کے ساتھ نسل در نسل تعلقات ہیں یعنی میرے والد مرحوم پھر میں اور اب میرے بیٹے معارج اور معز چین کی ترقی کے زبردست حامی ہیں۔ معارج فاروق کو 2023ء میں بی آر آئی فورم میں شرکت کا موقع ملا جو اس کے لئے ایک نادر موقع تھا ۔ اپنے بیجنگ میں قیام کے دوران جہاں اس نے عالمی رہنمائوں کا تقاریر سنیں وہیں چین کے میڈیا ہائوسز اور تھنک ٹینکس سے بھی گفت وشنید اور ان کی ورکنگ دیکھنے کا موقع ملا۔
اسی طرح میرے چھوٹے بیٹے معز فاروق کو دسمبر2023ء میں دس دن کے لئے چین جانے کا موقع ملا ان کے وفد کا سب سے اہم دورہ سنکیانگ کا تھا۔ سنکیانگ کے بارے میں مغربی میڈیا جو بے سروپا پروپیگنڈہ کر رہا ہے ۔
وہ یقینا چین کی ترقی سے خائف ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چین اب ایک ناقابلِ تسخیر معاشی قوت بن چکا ہے۔ چینی سفارت خانے نے سنکیانگ کا دورہ کا اہتمام کرکے بہت اچھا کیا۔ اس میں قومی اخبارات قومی ٹی وی چینلز کالم نگار اور دیگر صحافی شامل تھے۔ دورہ کے دوران صحافیوں نے بازاروں سکولوں یونیورسٹیوں مساجد کا دورہ کیا۔ مختلف مقامات پر لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں چونکہ انگلش میڈیم نظام تعلیم رائج ہے اس لئے دیگر پاکستانیوں کی طرح میرے بچوں نے بھی اسی نظام کے تحت تعلیم حاصل کی۔ اس کے باوجود وہ چین کے موجودہ نظام زندگی اور طرز حکمرانی کو غالباً اس لئے بھی سپورٹ کرتے ہیں کہ چینی نظام ان کے نزدیک چینی عوام کے لئے مفید ثابت ہو رہا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ پاک چین دوستی نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر دلوں کی دوستی ہے۔ معارج اور معز دونوں اب ڈیلی اتحاد میڈیا گروپ(DAILY ITTEHAD MEDIA GROUP) میں سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے دنیا تبدیل ہوئی ویسے ہی میڈیا میں ٹرانسفارمیشن کا عمل جاری ہے۔دونوں نے پرنٹ کے ساتھ ساتھ اپنے میڈیا گروپ کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو بھرپور طریقے سے متحرک کیا۔ معارج اور معز سوشل میڈیا کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس کا مثبت استعمال کرتے ہیں۔ معارج ہر ہفتے خصوصی طور پر چین کے مختلف شعبوں کے بارے میں وی لاگ کرتا ہے جسے خاصی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اسی طرح معز نے سنکیانگ کا مثبت تاثر ابھارنے کے لئے نہ صرف اپنے میڈیا گروپ بلکہ چین کے اخبارات میں بھی مضامین لکھے۔ معز نے سنکیانگ کے بارے میں حقائق بیان کئے جو دیکھا وہی بتایا اور اپنی تحریروں میں مغربی پروپیگنڈہ کی نفی کی ۔ اس کے چینی اخبارات میں شائع ہونے والے مضمون کو چین بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی کا حوالہ چین کی وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ میں دیا گیا اور چین کے ترجمان نے معز کے مضمون کو سراہا۔ معز ، معارج اور میرے مضامین (CHINA DAILY) سی جی ٹی این (CGTN)میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
البتہ اس دوستی کے دشمن کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے اسی دوستی کو خراب کرنے کی کوشش ہو سکے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس تعلق کو مزید مضبوط بنانے کے لئے دونوں طرف سے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ جیسے میرے خاندان کا چین سے تین نسلوں کا تعلق ہے اسی طرح پاکستان اور چین کی آنے والی نسلیں اس دوستی پر فخر اور اسے مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔