اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی آفیشلز میں کوئی ایسا نہیں جو کہے ہم عافیہ کے وکیل کے ساتھ ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عدالتی معاون زینب جنجوعہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔
ان کے علاوہ سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی بھی عدالتی حکم پر کمرہ عدالت میں حاضر ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور سینیٹر مشتاق احمد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کیس کی سماعت میں وڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاون کے دلائل پر ہمیں امریکی وکیل سے کچھ معلومات درکار ہوں گی۔
اس موقع پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ چیزوں کو کنفیوز نہ کریں، سیدھا سادہ جواب دیں آپ رپورٹ جمع کرائیں گے؟ منور دوگل نے جواب دیا کہ میں صرف حکومتی رائے عدالت کو بتا رہا ہوں۔
عدالتی معاون زینب جنجوعہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 28 تاریخ کو ہی عافیہ صدیقی کے وکیل اسمتھ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے۔
اس موقع پر وزارتِ خارجہ نے رپورٹ جمع کرنے کے لئے مزید مہلت کی استدعا کردی۔
عدالت نے وکیل اسمتھ سے استفسار کیا کہ آپ ڈاکٹر فوزیہ کی جانب سے امریکا میں کیس لڑ رہے ہیں؟ آپ امریکا میں کیس تو لڑ رہے ہیں مگر ہماری حکومت آپ کے ساتھ نہیں اور مہلت پر مہلت مانگ رہی ہے، ایک امریکی وکیل کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی نے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا، ایک غیر ملکی وکیل ڈاکٹر عافیہ کا کیس لڑ رہا ہے مگر ہماری حکومت کیا کر رہی ہے؟
عدالتی معاون نے کہا کہ میں امید رکھتی ہوں کہ وفاقی حکومت کوئی پراپر حل نکالے گی، اس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ 3 سالوں سے یہ درخواست یہاں زیر سماعت ہے انہوں نے اب تک کیا کیا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس سردار اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ دوگل صاحب جو کچھ ہو رہا ہے، سب کو نظر آ رہا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے، وفاقی حکومت یا وزارت خارجہ اسمتھ کے ساتھ عدالت میں کھڑے ہونے سے کترا رہی ہے۔
اس پر ایڈیشل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ اور ڈاکٹر فوزیہ کے ساتھ کھڑی ہے، مگر حکومت ایک پروسیجر کے تحت چلتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دوگل صاحب آپ یہ تقریر پارلیمنٹ میں کیوں نہیں کرتے؟ آپ کی تقریر سیاست دان کی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ امریکا میں دائر درخواست ہمارے ساتھ اگر شیئر کی جائے تو ہمارے لئے آسانی ہوگی۔
اس پر امریکی وکیل نے دریافت کیا کہ اگر ان کو کاپی مل جائے تو یہ جواب جمع کرنے کیلئے کتنا وقت لگائیں گے؟ عدالت نے جواب دیا کہ میں ایک ہفتے سے آگے کا وقت نہیں دوں گا۔
بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے پانچ ہفتوں تک مہلت دینے کی استدعا کر دی۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی پانچ ہفتوں کی مہلت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک کیلئے ملتوی کر دی۔