Official Web

پنجاب یونیورسٹی میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے تصور کے موضوع پر اعلیٰ سطحی سیمینار

پنجاب یونیورسٹی شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان ، کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنا، پاکستان ریسرچ سینٹر فار اے کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر اسلام آباد نے پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کے سفارت خانے کے تعاون سے’ کمیونٹی آف شیئرڈ فیوچر فار مین کائینڈ‘کے موضوع پر الرازی ہال میں ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔

کانفرنس کا مقصد چین کے ہم نصیب سماج کے  تصور کے انتہائی اہم پہلوؤں کو سمجھنا تھا اور یہ سمجھنا تھا کہ ہم نصیب سماج  کے تصور کو مستقبل میں کس طرح نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ہم نصیب سماج  کا تصور  آج کی دنیا کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے نئی پالیسیاں فراہم کرتا ہے۔

کانفرنس میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے مختلف پہلوؤں اور مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کی کشادگی اور شمولیت کو کامیابی سے اجاگر کیاگیا ۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے شرکاء کے لئے تعریفی کلمات ادا کیے اور چین اور پاکستان کی تاریخی دوستی پر گفتگو کی۔ انہوں نے دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں کے درمیان نظریات کے تبادلے اور تحقیقی تعاون کو وسعت دینے کے لیے کانفرنس کو خوش آئند قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین سیاسیات اور سکالرز ایک دوسرے کی کامیابی کی کہانیوں کا مطالعہ کر کے استفادہ کر سکتے ہیں

چیئرمین شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے کانفرنس میں چین سے آئے مہمانوں اور دیگر مقررین کو خوش آمدید کہا۔انہوں نے مشترکہ مفادکے لیے مختلف مشترکہ پراجیکٹس کے انعقاد میں علاقائی انٹیگریشن سنٹر کے کردار پر روشنی ڈالی۔پاکستان ریسرچ سینٹر فار اے کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد تیمور اکرم نے بھی چینی سکالرز کا خیرمقدم کیا اورادارے کے تعلیمی تعاون کو فروغ دینے اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ معاشروں کی تعمیر میں ان کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔

انسٹیٹیوٹ فار اے کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر کے ڈین کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائناسے پروفیسر لی ہوالنگ نے بتایا کہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کا تصور کس طرح مساوات پر قائم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ اختلافات کو قبول کرتا ہے، سب کا احترام کرتا ہے، اور عالمگیر خوشحالی اور مشترکہ ترقی کی وکالت کرتا ہے۔

چیئرپرسن شعبہ سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد نے ’کمیونٹی آف شیئرڈ فیوچر ایک بہترین دنیا کی تعمیر کے لیے ایک عظیم ہم آہنگی ‘کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ چین نے ایک بڑے ذمہ دار ملک کی حیثیت سے بحرانوں کے سیاسی حل، بین الاقوامی مسائل کے حل، امن کے قیام اور کشیدگی میں کمی کے لیے نتیجہ خیز کوششیں کی ہیں۔

ڈائریکٹر پنجاب یونیورسٹی ریجنل انٹیگریشن سنٹر ڈاکٹر فوزیہ ہادی علی نے علاقائی خوشحالی کے لیے مشترکہ کمیونٹی تصور کو فروغ دینے کے لیے ریجنل انٹیگریشن سنٹر کے عزم کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تصور کی جڑیں شمولیت، تعاون اور باہمی فہم کے اصولوں میں پیوست ہیں۔ ڈپٹی ڈین پروفیسر چانگ یانکیو نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جمہوریت کسی فرد یا ملک کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ انہوں نے چین کے عوامی جمہوریت کے پورے عمل کی وضاحت کی اور بتایا کہ کس طرح چین سیاسی عمل میں لوگوں کو شامل کرنے کی اپنی صلاحیت میں کامیاب رہا ہے۔

شعبہ تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ افتخار نے چین کے بین الاقوامی تعلقات اور سی پیک بارے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ انہوں نے چین اور پاکستان کے درمیان مختلف چینی ثقافتی سرگرمیوں میں سماجی و ثقافتی تبادلے، تبادلے کے پروگراموں اور پاکستان کی شرکت پر روشنی ڈالی۔

سی یو سی چائنا کے سیکشن چیف ڈاکٹر جی ینگلنگ نے چین کی خواتین کی ہمہ جہت ترقی اور سب کے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر پرجامع بیان کیا۔انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے میں چین کے تعاون پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح خواتین خود انحصاری اور تعاون، رکاوٹوں کو توڑ کر اور اقتصادی ترقی کے ذریعے اپنی زندگیوں کو سنبھال رہی ہیں۔

انہوں نے چیلنجز کو بھی اجاگر کیا اور خواتین کے لیے جامع ترقی، خواتین کے حقوق کے تحفظ، تعلیم اور روشن مستقبل کے لیے جدت کو فروغ دینے کے حل پیش کیے۔سیمینار میں شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان کے فیکلٹی ممبران،  پاکستان ریسرچ سینٹر فار اے کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر کی سینئر مینجمنٹ اور  انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلباء نے شرکت کی۔کانفرنس کا مقصد چین کی جانب سے پیش کئے گئے ہم نصیب سماج کے تصور کے انتہائی اہم پہلوؤں کو سمجھنا تھا اور یہ سمجھنا تھا کہ مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کے تصور کو مستقبل میں کس طرح نافذ کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کا تصور آج دنیا کو درپیش چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے نئی پالیسیاں فراہم کرتا ہے۔