Official Web

‎چین امریکہ کشیدگی آخر امریکہ چاہتا کیا ہے؟

چند روز قبل امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے جب تائیوان کے دورہ کا اعلان کیا تو چین نے اس پر سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی اور نینسی پلوسی اس دورہ سے باز رہنے کی دھمکی دی تھی لیکن  نینسی پلوسی چینکی جانب سے سخت انتباہ کے باوجود گذشتہ روز تائیوان پہنچ گئیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق چین نے نینسی پلوسی کے دورہ تائیوانکو انتہائی خطرناک اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔دوسری طرف چینی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے فائٹر طیاروں نےآبنائے تائیوان کو پار کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ چین نے متعدد بار خبردار کیا تھا کہ امریکی اسپیکرکا دورہ تائیوان چین کے اندرونیمعاملات میں مداخلت ہوگا۔ چین کا کہنا تھا کہ نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا تو چینی فوج ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھےگی، چین اپنی خود مختاری، علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے سخت جوابی اقدامات کرے گا، امریکی اسپیکر کا دورہ تائیوان خوفناکسیاسی اثرات کا باعث بنے گا۔ ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان کہا ہے کہ پاکستان ون چائنہ کی حمایت کرتا ہے اورتائیوان کو چین کا حصہ سمجھتا ہے۔

چین کی جانب سے سخت انتباہ کے باوجود امریکی سپیکر نینسی کا دوران تائیوان افسوسناک ہے۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتاہے اور وہ ون چائنہ پالیسی پر قائم ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے بھی نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان پر اپنے شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں عدم استحکام کا باعث قرار دیا ہے جبکہ چینی فضائیہ نے فوجی مشقیں بھیشروع کر دی ہیں۔ یہ صورتحال علاقے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ امریکہ کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی  ہے کہ وہدوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتا رہا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ چین کی جانب سے  منع کرنے کے بعد امریکی سپیکر کو اپنا دورہتائیوان منسوخ کر دیتیں لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں جو نہ صرف خطہ بلکہ عالمی امن کے لئے سخت خطرہ بن چکا ہے جسکے  اثرات سے پوری دنیا متاثر ہو گی اور کورونا کے باعث عالمی سطح پر جو معاشی تباہی پیدا ہوئی ہے خدانخواستہ اگر ان دونوںملکوں میں جنگ چھڑتی ہے تو اس سے مزید تباہی ہو گی۔ امریکہ کوچاہئے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے کیونکہ اس وقت تکاس کے تمام اقدامات تباہی وبربادی کا باعث بنے ہیں لہٰذا اب اسے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرتے ہوئے عدم مداخلت کا راستہ اپناناچاہئے اور جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہئے یہی بہترین راستہ ہے۔